ایران کا جوہری معاہدے سے نکلنے کا اعلان

ایران کے صدر حسن روحانی کی بوشہر کی جوہری تنصیب کے دورے کے موقع کی ایک تصویر۔ فائل فوٹو

ایران نے بغداد کے ایئرپورٹ کے قریب امریکی فضائی حملے میں اپنے ایک اہم کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے ردعمل میں جوہری توانائی کے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اب وہ یورینیم کی افزودگی کی اس سطح کی پابندی نہیں کرے گا جو چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے میں طے کی گئی تھی۔

صدر ٹرمپ پہلے ہی اس معاہدے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے امریکہ کو اس سے الگ کرنے کے بعد ایران پر سخت تر اقتصادی پابندیاں نافذ کر چکے ہیں تاکہ ایران کو نئی شرائط کے لیے مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔

ایران نے اتوار کے روز کہا ہے کہ اب وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت عائد کردہ کسی بھی پابندی پر عمل نہیں کرے گا۔

یہ اعلان ایران کی جانب سے ایک اہم قدم ہے جو تہران کو اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو اس سطح تک افزودگی سے روکتا ہے جو ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے لیے درکار ہوتی ہے۔

ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کے ایک نشریے میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ اس نے یورپی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کے لیے اپنے دروازے بدستور کھلے رکھے ہوئے ہیں۔

امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران جوہری معاہدے میں شامل پانچ یورپی طاقتوں پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ امریکی اقتصادی پابندیوں کو نظر انداز کر کے اس سے خام تیل خریدیں، لیکن ابھی تک ان کی جانب خریداری کی کوئی پیش کش نہیں کی گئی ہے۔

ایران نے ابھی تک اپنے ان وعدوں سے ہٹنے کا اعلان نہیں کیا کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہتا۔

ایران کا یہ اعلان اتوار کی رات ایک ایرانی عہدے دار کے اس سخت بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وہ جنرل قاسم کی ہلاکت کے خلاف سخت تر اقدام کریں گے۔

ایران میں اتوار کے روز لاکھوں شہریوں نے جنرل قاسم کی ہلاکت کے خلاف جلوس نکالا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران کی قدس فورس کے سربراہ کو اس لیے ہلاک کیا گیا کیونکہ وہ ہمسایہ ممالک میں پراکسی جنگجوؤں کے ذریعے عدم استحکام پیدا کر رہا تھا اور امریکی مفادات کے لیے خطرہ بنا ہوا تھا۔

ایران کی ایک پراکسی ملیشیا لبنان کی حزب اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے میں امریکی فوج کے مراکز، جنگی جہازوں اور اہل کاروں پر حملوں کا جواز پیدا ہو گیا ہے۔

ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے صدر حسن روحانی کی انتظامیہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب ان کا ملک اپنی یورینیم کی افزودگی کی حد، افزودہ یورینیم کے ذخائر کی مقدار اور جوہری ترقی و تحقیق سے منسلک سرگرمیوں پر اب کسی طرح کی پابندی قبول نہیں کرے گا۔ اور اس شعبے میں آزادی سے کام جاری رکھے گا۔