ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر ہفتے کو مذاکرات کا پہلی بار آغاز ہوا، جس میں ایران اور امریکہ کےچوٹی کے جوہری اہل کاروں نے شرکت کی، جس دوران کوشش یہ رہے گی کہ 31 مارچ کی حتمی تاریخ کے اندر اندر کسی معاہدے تک پہنچا جائے۔
جوہری توانائی کی تنظیم کے ایرانی سربراہ، علی اکبر صالحی اور امریکہ کے وزیر برائے توانائی، ارنیسٹ مونیز گفت و شنید میں شریک ہونے کے لیے جنیوا پہنچے۔
توقع ہے کہ اُن کی موجودگی جاری تکنیکی تنازعات کے تصفیے میں معاون ثابت ہوگی، جو ایران اور چھ عالمی طاقتیں، جنھیں ’پی فائیو پلس ون‘ کہا جاتا ہے، کے درمیان سمجھوتے کی راہ میں حائل ہیں۔
ایران اور اُس گروپ، جس میں امریکی، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیں، کے ماہرین کے درمیان سمجھوتا ایران کے خلاف تعزیرات میں نرمی کے بدلے اُس کی جوہری سرگرمیوں کو ترک کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اتوار کو جنیوا پہنچنے والے ہیں، جہاں وہ اپنے ایرانی ہم منصب، محمد جواد ظریف کے ساتھ دو روزہ مذاکرات میں شرکت کریں گے۔
جنیوا جانے سے قبل،وہ ہفتے کو لندن میں برطانیہ کے وزیر خارجہ سے ملاقات کریں گے۔ کیری نے کہا ہے ایران کے معاملے پر پی فائیو پلس ون متحد ہے۔
اُن کے بقول، اس سلسلے میں سوچ میں قطعی طور پر کوئی فرق نہیں ہے، جس کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اس بات کا ثبوت دے کہ مستقبل میں اُس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے رہے گا۔
یہ نئی بات چیت ایسے وقت ہو رہی ہے جب نیوکلیئر معاملے پر اقوام متحدہ کے ادارے نے ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اُسے ایران کے ممکنہ پوشیدہ جوہری عزائم کے بارے میں صحیح علم نہیں ہے، جس میں ایسا میزائل تیار کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں جو جوہری ہتھیار کے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تاہم، توانائی سے متعلق بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) نے کہا ہے کہ ایران جوہری سمجھوتے کی چند شقوں کی پاسداری کر رہا ہے۔
سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ایرانی میڈیا نے ایران آئی اے اِی اے میں ایران کے سفیر، رضا نجفی کے حوالے سے بتایا ہے کہ تجزیات سے اُن کے ملک کی ’مکمل شفافیت‘ اور اُس کے پروگرام کی پُرامن نوعیت کا پتا چلتا ہے۔