ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر یورپی یونین اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان سمجھوتے کا خاکہ طے پا گیا ہے، جس کا اعلان جمعرات کو یورپی یونین کی ایلچی برائے امور خارجہ فریڈریکا مغیرنی نے باضابطہ طور پر کیا۔
سوٹزرلینڈ کے شہر، لوزیان سے براہ راست اعلان میں فریڈریکا نے کہا کہ ’یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ ہم ایک سیاسی سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں‘۔
’یوں، ہم جون 30 تک حتمی سمجھوتا طے کر لیں گے‘۔
اس مشترکہ اخباری کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف بھی موجود تھے۔
اخباری کانفرنس سے خطاب میں، ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ اُن کے ملک کے جوہری پرگرام کے حوالے سے، ’یہ ایک اہم پیش رفت‘ ہوئی ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ابھی ایران اور عالمی طاقتوں کے سامنے باقاعدہ ’سمجھوتا موجود نہیں ہے‘۔
اپنے کلمات میں، جان کیری نے کہا کہ ایران جوہری مذاکرات میں سمجھوتے کے ’پیرامیٹرز‘ پر رضامندی پر پہنچنا، ’ایک سنگ میل‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حتمی سمجھوتے تک پہنچنا امریکہ، اس کے اتحادیوں، خطے اور بین الاقوامی برادری کے لیے بڑی کامیابی کا باعث ہوگا۔
بقول اُن کے، ایک بہتر سمجھوتے کے طویل مدتی، مثبت اور دیرپہ اثرات پڑیں گے، جس میں معائنے کے شفاف انتظام کو یقینی بنانے کی بدولت اس سے روگردانی ممکن نہیں ہوگی، ’جس کے لیے، ایک ٹھوس بنیاد فراہم ہو چکی ہے‘۔
ادھر وائٹ ہاؤس سے خطاب میں، امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اگر اس پر صدق دل سے عمل درآمد ہو، تو ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی ’تمام راہیں‘ بند ہوجائیں گی۔
صدر اوباما نے کہا کہ ایران کو سخت معائنے کا سامنے کرنا پڑے گا، جیسا کہ اب تک دنیا میں کبھی نہیں ہوا۔ صدر نے اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ اگر ایران نے ’دھوکا دینے کی کوشش کی، تو دنیا کو اس کا علم ہوجائے گا۔‘
مسٹر اوباما نے یہ بھی کہا کہ اس کے عوض، ایران کو امریکہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے عائد کی گئی تعزیرات سے چھٹکارا ملے گا، جن کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ اِن کی وجہ سے ایران کی معیشت کو زوردار جھٹکا لگا ہے۔
خدوخال طے کیے جانے کو، صدر اوباما نے ’ایک اچھا سمجھوتا‘ قرار دیا، جو حتمی سجھوتے کے لیے ’ایک ٹھوس اور شفاف بنیاد‘ فراہم کرتا ہے۔
صدر نے کہا کہ یہ ’ایک طویل مدتی‘ سمجھوتے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ ایران کو جوہری بم بنانے میں دو سے تین ماہ کا عرصہ درکار تھا، جب کہ اب سینٹری فیوجز، بھاری پانی اور پلوٹینئیم کو تلف یا کم درجے تک لانے کے اقدامات کے بعد، ایران کے لیے لازم ہوگا کہ وہ نئے قدم اٹھانے سے پہلے بین الاقوامی برادری کو انتباہ دے، جس سے اُس کی جانب سے ہتھیاروں کے حصول کا معاملہ ناممکن سے مشکل ترین ہوجائے گا۔
اس سے قبل، بات چیت میں، کسی ابتدائی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے مارچ 31 کی ڈیڈلائن کا تعین کیا گیا تھا، لیکن اس میں دو بار توسیع کی گئی۔
ایران اور عالمی طاقتوں کا گروپ، جس میں امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی شامل ہے، اب جون کے آخر تک ایک حتمی سمجھوتے پر پہنچنے پر دھیان دیں گے۔
اس سے قبل، اپنے ایک ٹویٹ میں، جان کیری نے اسے ایک ’تاریخ ساز لمحہ‘ قرار دیا، اور کہا کہ مذاکرات کار سمجھوتے کے وسیع تر ’پیرامیٹرز‘ تک پہنچ چکے ہیں، جو اس معاملے کے حتمی تصفیے کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔
اِس سے قبل موصولہ رپورٹس کے مطابق،امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے ٹویٹر کے ذریعے بتایا کہ عہدیداروں نے جمعرات کی صبح ایرانی اور بین الاقوامی ماہرین کے وفود کے ہمراہ وقفے سے پہلے کئی گھنٹے تک بات چیت کی۔ انہوں نے بتایا کہ مذاکرات میں مسلسل پیش رفت جاری ہے۔ تاہم، مذاکرات کار ’کسی سیاسی سمجھوتے پر نہیں پہنچے۔‘
بدھ کو سارا دن امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی کے ایران کے ساتھ مذاکرات جاری رہے، تاکہ بنیادی معاہدے میں رہ جانے والے خلا پر کیے جا سکیں۔
فریقین نے معاہدے کے بنیادی خدوخال واضح کرنے کے لیے منگل کی تاریخ طے کی تھی مگر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایران کے مرکزی مذاکرات کار عباس عراقچی نے بدھ کو ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کو بتایا کہ ان کا وفد اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ معاہدے کے بنیادی خدوخال واضح ہونے چاہئیں، تاکہ ایران کی طرف سے کسی معاہدے پر اتفاق کرنے سے پہلے اس پر سے تمام بین الاقوامی پابندیاں اٹھائی جا سکیں۔
دوسرے اختلافی معاملات میں ایران کی مستقبل میں جوہری تحقیق اور ترقی شامل ہے۔
مغرب کو شبہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن، تہران اس بات کی تردید کرتے ہوئے مُصر ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لیے ہے۔