امریکہ نے اُن پانچ ایرانی اداروں کےنام بھی ظاہر کیے ہیں، جو، اُس کے بقول، براہِ راست اُن اقدامات میں ملوث ہیں جو ایران کی طرف سے یورینئیم کی افزودگی میں معاونت فراہم کر رہے ہیں
واشنگٹن —
امریکہ نے ایران کے خلاف بین الاقوامی تعزیرات کی پابندی سے پہلو تہی کرنے پر اور ایران کے جوہری پروگرام کے لیےحمایت فراہم کرنے کے جرم میں، ایک درجن سے زائد اداروں اور افراد کے خلاف اقدام کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی محکمہٴخزانہ اور محکمہٴخارجہ نے اُن کے اثاثے منجمد کرنے اور اُن کے ساتھ لین دین پر بندش لگانے کا اعلان کیا ہے، جو، اُس کے بقول، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانےوالے ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا مادہ دستیاب کرنے میں ملوث رہے ہیں، جو تعزیرات کی خلاف ورزی پر تلے ہوئے ہیں۔
اہل کاروں نےجمعرات کو بتایا کہ نئے اہداف میں سنگاپور، فلپین اور یوکرین کی جہازرانی کے ادارے اور افراد شامل ہیں، یعنی، مِڈ آئل ایشیا، سنگا ٹینکرز، سکیریا میری ٹائم، فرلینڈ کمپنی لمیٹڈ اور وِٹالی سوکولینکو۔
امریکہ نے اُن پانچ ایرانی اداروں کےنام بھی ظاہر کیے ہیں، جو، اُس کے بقول، براہِ راست اُن اقدامات میں ملوث ہیں جو ایران کی طرف سے یورینئیم کی افزودگی میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق اداروں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔
ڈیوڈ کوہن امریکی محکمہٴخزانہ میں دہشت گردی اور مالی انٹیلی جنس سے متعلق معاون وزیر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جمعرات کا یہ اقدام، پچھلے اقدامات کے علاوہ ہے، جِن میں اضافی اداروں اور افراد کو پابندی کے دائرے میں لایا گیا ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی قانون ساز ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ تاہم، اوباما انتظامیہ نے اب تک اُنھیں ایسا نہ کرنے پر قائل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے کسی اقدام سے ایران کے ساتھ جاری مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے روکنا ہے۔
کوہن اور محکمہٴخارجہ کی سیاسی امورسے متعلق معاون وزیر وینڈی شرمن نے جمعرات کے روز کانگریس کی سماعت کے دوران بتایا کہ ایران کے خلاف نئی تعزیرات لاگو کرنے کا ممکنہ نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہو جائے گا۔
ایران کے جوہری پروگرام پر ’پی فائیو پلس ون‘ کہلانے والے ممالک، یعنی برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ایک عبوری سمجھوتا طے کیا تھا، اور مروجہ تعزیرات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا، جو اکثرو بیشتر اُن کے اپنے معاشی مفادات کے خلاف ہیں۔
شرمن نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کانگریس کو یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ایران کے خلاف اضافی اقدام نہیں کیے جانے چاہئیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے بھی یہ کہا ہے کہ نئی تعزیرات کا قانون گذشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والے عبوری سمجھوتے کے برخلاف ہوگا۔ عبوری سمجھوتے کے تحت، ایران بین الاقوامی تعزیرات میں نرمی کے عوض یورینئیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر رضامند ہوا تھا۔
امریکی محکمہٴخزانہ اور محکمہٴخارجہ نے اُن کے اثاثے منجمد کرنے اور اُن کے ساتھ لین دین پر بندش لگانے کا اعلان کیا ہے، جو، اُس کے بقول، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانےوالے ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا مادہ دستیاب کرنے میں ملوث رہے ہیں، جو تعزیرات کی خلاف ورزی پر تلے ہوئے ہیں۔
اہل کاروں نےجمعرات کو بتایا کہ نئے اہداف میں سنگاپور، فلپین اور یوکرین کی جہازرانی کے ادارے اور افراد شامل ہیں، یعنی، مِڈ آئل ایشیا، سنگا ٹینکرز، سکیریا میری ٹائم، فرلینڈ کمپنی لمیٹڈ اور وِٹالی سوکولینکو۔
امریکہ نے اُن پانچ ایرانی اداروں کےنام بھی ظاہر کیے ہیں، جو، اُس کے بقول، براہِ راست اُن اقدامات میں ملوث ہیں جو ایران کی طرف سے یورینئیم کی افزودگی میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق اداروں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔
ڈیوڈ کوہن امریکی محکمہٴخزانہ میں دہشت گردی اور مالی انٹیلی جنس سے متعلق معاون وزیر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جمعرات کا یہ اقدام، پچھلے اقدامات کے علاوہ ہے، جِن میں اضافی اداروں اور افراد کو پابندی کے دائرے میں لایا گیا ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی قانون ساز ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ تاہم، اوباما انتظامیہ نے اب تک اُنھیں ایسا نہ کرنے پر قائل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے کسی اقدام سے ایران کے ساتھ جاری مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے روکنا ہے۔
کوہن اور محکمہٴخارجہ کی سیاسی امورسے متعلق معاون وزیر وینڈی شرمن نے جمعرات کے روز کانگریس کی سماعت کے دوران بتایا کہ ایران کے خلاف نئی تعزیرات لاگو کرنے کا ممکنہ نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہو جائے گا۔
ایران کے جوہری پروگرام پر ’پی فائیو پلس ون‘ کہلانے والے ممالک، یعنی برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ایک عبوری سمجھوتا طے کیا تھا، اور مروجہ تعزیرات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا، جو اکثرو بیشتر اُن کے اپنے معاشی مفادات کے خلاف ہیں۔
شرمن نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کانگریس کو یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ایران کے خلاف اضافی اقدام نہیں کیے جانے چاہئیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے بھی یہ کہا ہے کہ نئی تعزیرات کا قانون گذشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والے عبوری سمجھوتے کے برخلاف ہوگا۔ عبوری سمجھوتے کے تحت، ایران بین الاقوامی تعزیرات میں نرمی کے عوض یورینئیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر رضامند ہوا تھا۔