ایران کے صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ووٹنگ کے دورانیے میں دو گھنٹے کے اضافے کے بعد ووٹنگ ایران کے وقت کے مطابق رات دو بجے تک جاری رہی۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق، ایران کے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں چار امیدوار میدان میں تھے۔ لیکن سرکاری سطح پر ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق، سخت گیر نظریات کے حامل عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی کو مضبوط ترین امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ایران کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور معتدل نظریات کے حامل سمجھے جانے والے صدارتی امیدوار عبدالناصر ہمتی اور ابراہیم رئیسی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے جب کہ دیگر دو امیدواروں میں پاسدارانِ انقلاب کے 16 برس تک کمانڈر رہنے والے محسن رضایی اور عامر حسین غازی زادے ہاشمی بھی میدان میں ہیں۔
جمعے کو مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو دارالحکومت تہران میں آیت اللہ خامنہ نے سب سے پہلے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں۔
خامنہ ای نے کہا کہ عوام گھروں سے نکلیں اور اپنے امیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے اسے ووٹ دیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، خامنہ کا ووٹ ڈالنے کے بعد عوام سے کہنا تھا کہ ووٹ کا حق استعمال کرنا ایران کے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہر ایک ووٹ کی گنتی ہو گی اس لیے گھروں سے باہر آئیں اور اپنے صدر کا خود انتخاب کریں۔
ایران میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد پانچ کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ ہے۔ تاہم ووٹنگ ٹرن آؤٹ نصف سے بھی کم رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اے پی کے مطابق ایران کی اسٹوڈینٹ پولنگ ایجنسی نے بتایا تھا کہ صدارتی انتخابات میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ 42 فی صد تک رہ سکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سب سے کم ترین ٹرن آؤٹ ہو گا۔
صدارتی انتخابات میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم رہنے کے خدشات کا اظہار ایسے موقع پر کیا جا رہا تھا جب کچھ اصلاح پسند سیاست دان اور بیرونِ ملک موجود انسانی حقوق کے کارکنان ایران کے شہریوں سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کر رہے تھے۔
اس سلسلے میں ایران کے اندر اور بیرونِ ملک موجود ایرانی شہری سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے صدارتی انتخاب کے خلاف مختلف ہیش ٹیگز کا استعمال بھی کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ صدارتی انتخاب میں مضبوط ترین امیدوار سمجھے جانے والے ابراہیم رئیسی نے 2017 کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔ تاہم، موجودہ صدر حسن روحانی نے اُنہیں شکست دے دی تھی۔
حسن روحانی 2013 میں پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے اور 2017 کے انتخابات میں وہ دوبارہ کامیاب ہوئے۔ البتہ، ایران کے آئین کے تحت وہ مسلسل تیسری بار صدارتی الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔
ایران کے اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے خلاف عوامی شکایات بڑھتی جا رہی تھیں اور بعض طبقات اُنہیں ملک کی معاشی مشکلات کا ذمے دار بھی سمجھتے ہیں۔