رسائی کے لنکس

ایران کے صدارتی انتخابات: فیصلہ ووٹر کرتے ہیں یا کوئی اور؟


ایران میں صدر کا الیکشن بظاہر دنیا کے دیگر صدارتی انتخابات کی طرح معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجرا، ان کی اہلیت اور مختلف اداروں کے اختیارات کی بہت سی تفصیلات اور طریقۂ کار باقی دنیا سے خاصے مختلف ہیں۔
ایران میں صدر کا الیکشن بظاہر دنیا کے دیگر صدارتی انتخابات کی طرح معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجرا، ان کی اہلیت اور مختلف اداروں کے اختیارات کی بہت سی تفصیلات اور طریقۂ کار باقی دنیا سے خاصے مختلف ہیں۔

ایران میں 18 جون کو صدارتی انتخاب منعقد ہوگا جس میں سات امیدوار حصہ لیں گے۔

ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے 'فارس نیوز' کے مطابق اُمیدواروں میں موجودہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی، سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیل، پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر محسن رضائی، ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ عبدالناصر ہمتی، پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر امیر حسین غازی زادہ، سابق نائب صدر مہر علی زادہ اور سابق قانون ساز علی رضا زکانی شامل ہیں۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق گارڈین کونسل (شوریٰ نگہبان) کے ترجمان عباس علی کدخدائی نے بتایا ہے کہ جون میں ہونے والے صدارتی انتخاب لڑنے کے خواہش مند 590 اُمیدواروں میں سے صرف ان سات امیدواروں کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔

ایران میں صدارتی انتخاب کیسے ہوتا ہے؟

ایران میں ہر چار سال بعد صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کے امیدواروں کی منظوری شوریٰ نگہبان دیتی ہے۔

صدر کا انتخاب براہِ راست عوام کی ووٹنگ سے ہوتا ہے۔ ایران میں 18 برس کی عمر کے شہری ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اس سے قبل 2007 تک ایران میں ووٹ ڈالنے کی کم سے کم عمر 15 سال تھی جسے دنیا میں ووٹنگ کے لیے سب سے کم عمر قرار دیا جاتا تھا۔

ایران میں صدر کا الیکشن بظاہر دنیا کے دیگر صدارتی انتخابات کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس میں امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجرا، ان کی اہلیت اور مختلف اداروں کے اختیارات کی بہت سی تفصیلات اور طریقۂ کار باقی دنیا سے خاصے مختلف ہیں۔

صدر کون بن سکتا ہے؟

ایران کے آئین کے آرٹیکل 114 کے مطابق صدر ایک مذہبی و سیاسی شخص ہونا چاہیے جو ایران کا شہری ہو۔ اس کے علاوہ صدر کو امانت دار اور متقی یعنی مذہبی احکامات کا پابند اور ایران کے سرکاری مذہب یعنی اسلام کا ماننے والا ہونا چاہیے۔

آئین میں بیان کی گئی ان بنیادی شرائط کے علاوہ الیکشن قوانین میں بھی امیدواروں کے لیے کئی دیگر شرائط بیان کی گئی ہیں جن کا تعین شوریٰ نگہبان کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

آئین کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر (رہبرِ اعلیٰ) کی ہدایت پر شوریٰ نگہبان صدارتی امیدواروں کے لیے قواعد و ضوابط جاری کرنے کی مجاز ہے۔ اس سال یکم مئی کو شوریٰ نے کچھ ترامیم کے ساتھ یہ ضوابط جاری کیے تھے۔

شوریٰ کے ’تہران ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے بیان کے مطابق صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند شخص کے لیے مذہبی علوم اور شیعہ عقائد کا مناسب علم ہونا ضروری ہے۔

امیدواروں کے لیے ریاستی اداروں میں کام کرنے کا کم سے کم چار برس کا تجربہ اور 20 لاکھ سے زائد آبادی والے شہروں کے گورنری یا وزارت پر فائز رہنے کی شرط بھی عائد کی گئی۔

اس کے علاوہ مسلح افواج میں میجر جنرل یا اس سے زیادہ رینک کے افسران اور مجرمانہ ریکارڈ نہ رکھنے والے اُمیدواروں کو بھی صدارتی الیکشن لڑنے کی رجسٹریشن کی اجازت دی گئی تھی۔

قواعد کے مطابق انتخابات لڑنے کے خواہش مند افراد پہلے وزارتِ داخلہ میں اپنی رجسٹریشن کراتے ہیں اور بعد ازاں شوریٰ نگہبان حتمی امیدواروں کی فہرست جاری کرتی ہے۔

انتخاب میں حصہ لینے کے خواہش مندوں کے لیے ماسٹرز کی ڈگری کو بھی لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس بار صدارتی امیدواروں کے لیے 40 سے 70 سال کی عمر متعین کی گئی۔

صدارتی امیدواروں کے لیے قواعد و ضوابط پر سوال

شوریٰ نگہبان کی جانب سے جاری ہونے والے قواعد و ضوابط میں امیدواروں کی کم سے کم عمر 40 برس رکھنے پر ایران کے سبک دوش ہونے والے صدر حسن روحانی نے بھی تنقید کی۔

برطانوی اخبار 'گارڈین' کے مطابق حسن روحانی نے شوریٰ کی جانب سے عمر کی حد متعین ہونے کے بعد وزارتِ داخلہ پر زور دیا کہ وہ امیدواروں کی رجسٹریشن کے دوران اس شرط کو نظر انداز کر دیں۔

بعض مبصرین کے مطابق عمر کی حد میں ترمیم حسن روحانی کی کابینہ میں شامل اطلاعات کے وزیر 39 سالہ محمد جواد آذری جھرمی کو انتخابات سے روکنے کے لیے کی گئی ہے۔

محمد جواد آذری کو رواں برس جنوری میں انسٹاگرام بلاک کرنے اور انٹرنیٹ پر دیگر پابندیاں عائد کرنے سے انکار کرنے کے الزام میں عدالتی حکام نے طلب کیا تھا۔

انہیں بعد میں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے عدلیہ کے اس اقدام پر شدید تنقید کی تھی۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جواد آذری کے خلاف عدلیہ کی یہ کارروائی ایران میں قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان جاری کشمکش کا شاخسانہ تھا۔

بعض مبصرین کے مطابق ایرانی نوجوانوں میں مقبول آذری ممکنہ طور پر صدارتی امیدوار ہو سکتے تھے اور اسی لیے عدلیہ نے ان کے خلاف کارروائی کی تھی۔

کیا کوئی خاتون ایران کی صدر بن سکتی ہیں؟

اس حالیہ اعتراض کے علاوہ ایران میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے رکھی گئی شرائط پر ماضی میں بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

ایران کے آئین میں امیدوار کا سیاسی و مذہبی ’رجل‘ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ عربی اور فارسی زبان کے اس لفظ کا معروف مطلب ’مرد‘ ہے جس سے یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ خواتین انتخابات میں حصہ لینے کی اہل نہیں۔

انتخابی امیدواروں کی حتمی منظوری دینے والی شوریٰ نگہبان کے ترجمان عباس علی کدخدائی نے 2017 میں اس بارے میں کہا تھا کہ ایران میں خواتین صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتی ہیں۔ البتہ امیدواروں کی حتمی منظوری شوریٰ نگہبان ہی دے گی۔

ایران میں 1990کی دہائی سے خواتین صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی کوشش کرتی آئی ہیں اور 1997 میں خواتین کے حقوق کی کارکن اعظم طالقانی وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے بطور امیدوار رجسٹریشن کرائی تھی۔ تاہم آج تک صدارتی امیدواروں کی کسی حتمی فہرست میں خاتون امیدوار کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

اس کے علاوہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ایران کے آئین میں صدر کے لیے ’سرکاری مذہب‘ کا پیروکار ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 12 میں ریاست کا مذہب (دینِ رسمی) اسلام اور جعفری اثنا عشری کو ایران کا سرکاری مکتبِ فکر قرار دیا گیا ہے۔

اس لیے ایران کی دیگر مذہبی اقلیتوں کے علاوہ ایران میں بسنے والے سنی مسلمان بھی صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔

کیا ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:46 0:00

سب سے زیادہ با اختیار کون؟

صدارتی نظام رکھنے والے دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح ایران میں بھی صدر کا انتخاب تو براہِ راست ہوتا ہے لیکن انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کا فیصلہ شوریٰ نگہبان کرتی ہے۔ اسی لیے اسے ایران کا طاقت ور ترین ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔

اس ادارے کے 12 ارکان ہوتے ہیں جن میں سے چھ کا تقرر ایران کا سپریم لیڈر یا رہبرِ اعلیٰ کرتے ہیں۔

اس لیے براہِ راست منتخب ہونے کے باوجود ایران میں ایک صدر کتنا با اختیار ہوتا ہے؟ اس پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔

ایران کی آئین کی دفعہ 60 کے تحت صدر اور وزرا انتظامی امور چلائیں گے ماسوائے ان امور کے جو براہِ راست سپریم لیڈر کے دائرہٴ اختیار میں آتے ہیں۔

ایران میں آیت اللہ خمینی کے زیرِ قیادت 1979 میں آنے والے انقلاب کے بعد بادشاہت کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد ایران کے ریاستی و حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی کی گئی تھی اور آیت اللہ خمینی نے رہبر کا عہدہ تشکیل دیا تھا۔

سپریم لیڈر کا انتخاب مجلس خبرگان یا ’اسمبلی آف ایکسپرٹس‘ نامی کونسل کرتی ہے جس کے 88 ارکان ہوتے ہیں۔ ہر آٹھ سال بعد اس کونسل کے ارکان براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ البتہ سپریم لیڈر کے عہدے کی مدت تاحیات ہے۔

مجلسِ خبرگان کے انتخابات میں صرف مذہبی علما اور مذہبی رجحان رکھنے والے افراد ہی کو بطور امیدوار حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔

ایران میں ریاست کے تین بنیادی ادارے مقننہ یعنی پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ سے متعلق فیصلوں میں براہِ راست یا بالواسطہ حتمی اختیار سپریم لیڈر کے پاس ہے۔

آئین کے مطابق ملک کی سلامتی، خارجہ پالیسی، عدلیہ اور مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری اور صدر کے انتخاب کی حتمی توثیق سمیت ملک کی سب سے بااختیار 12 رکنی شوریٰ نگہبان کے چھ ارکان کا تقرر بھی سپریم لیڈر کرتے ہیں۔

سب سے طاقت ور کونسل

شوریٰ نگہبان ایران کا سب سے بااختیار ادارہ اس لیے تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ ملک میں صدارتی امیدواروں، انتخابی نتائج کی توثیق اور صدارتی امیدواروں اور ارکانِ پارلیمنٹ کی اہلیت جیسے بنیادی فیصلے یہ کونسل کرتی ہے۔

اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کی بھی شوریٰ نگہبان سے توثیق ضروری ہے۔ شوریٰ کے پاس کسی قانون کو منظور کرنے یا نہ کرنے کے لیے 20 روز کا وقت ہوتا ہے جس کے بعد قانون از خود مںظور تصور کیا جاتا ہے۔

اس 12 رکنی کونسل میں چھ مذہبی عالم شامل ہوتے ہیں جن کا تقرر سپریم لیڈر کرتے ہیں جب کہ چھ قانونی ماہرین کو وزارتِ قانون نامزد کرتی ہے۔

تاہم ان قانونی ماہرین کو مذہبی امور سے متعلق قانونی سازی میں رائے دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ شوریٰ نگہبان کے ارکان کے عہدے کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔

سپریم لیڈر اور شوریٰ نگہبان کو حاصل ان قانونی اختیارات کی وجہ سے صدر ایک خاص دائرے ہی میں بااختیار ہوتا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای۔ فوٹو فائل
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای۔ فوٹو فائل

ماضی کے صدور کے ساتھ کیا ہوا؟

انقلاب کے بعد ایران کے پہلے صدر ابوالحسن بنی صدر 1980 سے 1981 تک ایک سال سے زائد عرصے تک ہی عہدے پر رہے تھے اور ان دنوں فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دوسرے صدر محمد علی رجائی 1981 میں ایک بم حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ علی خامنہ ای 1981 سے 1989 تک صدارت کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس وقت وہ ایران کے سپریم لیڈر ہیں۔

ایران کے چوتھے صدر ہاشمی رفسنجانی 1989 سے 1997 تک منصب پر فائز رہے تھے۔ بعد میں جب انہوں نے 2013 کے انتخابات میں حصہ لینا چاہا تو شوریٰ نگہبان نے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

سن 1997 سے 2005 تک عہدے پر رہنے والے ایران کے پانچویں صدر محمد خاتمی تھے۔ انہوں نے ایران میں 2009 سے 2011 کے دوران اٹھنے والی حزبِ مخالف کی تحریک ’گرین موومنٹ‘ کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے اب بھی ان کی نقل و حرکت پر پابندی ہے اور وہ ایران میں ہی مقیم ہیں۔ سن 2015 میں ایرانی میڈیا پر محمد خاتمی کا نام اور تصویر شائع یا نشر کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔

محمود احمدی نژاد 2005 سے 2013 تک عہدے پر رہنے والے ایران کے چھٹے صدر ہیں اور انہیں بھی شوریٰ نگہبان کی جانب سے 2021 کے انتخابات کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔

ماضی میں موجودہ صدر حسن روحانی اور سپریم لیڈر کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عہدے سے سبکدوشی کے بعد صدر روحانی کو کِن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

XS
SM
MD
LG