ایران میں جمعے کو ہونے والے انتخابات میں امیدواروں کی اکثریت رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی سخت گیر پالیسیوں کی حامی ہے جب کہ دوسری جانب بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال اور شخصی آزادیوں پر مبینہ پابندیوں کے باعث امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انتخابی عمل میں اصلاح پسند ووٹرز کی دلچسپی شاید کم رہے۔
مبصرین صدارتی انتخابات میں سخت گیر تصور ہونے والے قدامت پسند امیدوار ابراہیم رئیسی کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں اور انہیں ایران کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ بھی کہا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق، ایرانی حکام کو امید ہے کہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ زیادہ رہے گا۔ لیکن، اب تک سامنے آنے والے سرکاری جائزے کے مطابق تقریباً پانچ کروڑ 90 لاکھ ووٹروں میں سے صرف 40 فی صد ووٹ ڈالیں گے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باعث ایران کی معیشت بری طرح متاثر ہے۔
دوسری جانب صدارتی امیدواروں میں سخت گیر رہنماؤں کی اکثریت ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر امکان ہے کہ کئی ووٹر انتخابات میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔
سات صدارتی امیدواروں میں سے پانچ ایران کے رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای کی مغرب مخالف طرزِ فکر کے حامی ہیں۔ ان میں ابراہیم رئیسی اور سعید جلیلی سب سے نمایاں ہیں۔
انتخابی دوڑ میں صرف دو اصلاح پسند امیدوار شامل ہیں۔ اصلاح پسند امیدوار ایران کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ عبدالناصر ہمتی اور سابق نائب صدر محسن مہر علی زادہ کم معروف سیاسی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ووٹروں کے لیے امیدواروں میں انتخاب کی گنجائش محدود ہونے سے اسے ایران میں اصلاح پسند سیاست کی پسپائی کہا جا سکتا ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق پہلے ہی 2015 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کے امریکہ کے فیصلے سے ایران میں جدت پسند اور مغرب سے تعلقات بڑھانے کے حامی حلقے کمزور ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد اصلاح پسند ایرانی صدر حسن روحانی نے 2017 کے انتخابات میں واضح برتری حاصل کی تھی اور دوسری بار اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
جانب داری کے الزام اور بائیکاٹ کی اپیل
صدارتی امیدواروں کے ٹی وی مباحثے کے دوران اصلاح پسند امیدوار محسن مہر علی زادہ نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ایک خاص شخص کو صدر بنانے کے لیے زمین و آسمان ایک کر دیے گئے ہیں۔
ایران کے اندر اور بیرونِ ملک مقتدر حلقوں کی پالیسیوں کے مخالفین نے صدارتی اتنخابات کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کی ہے۔
اس کے علاوہ 2009 کے انتخابی نتائج کے خلاف تحریک چلانے والے رہنما میر حسن موسوی نے بھی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ میر حسن موسوی 2011 سے نظر بند ہیں۔
ویب سائٹ ’کلمہ‘ کے مطابق میر حسن موسوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں جو مضحکہ خیز اور انجینئرڈ انتخابات سے تھک چکے ہیں اور جو پسِ پردہ ہونے والے خفیہ فیصلوں کے سامنے شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
میر حسن موسوی اور مہدی کروبی دونوں اصلاح پسند سیاسی رہنما ہیں اور انہوں نے 2009 کے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ ان انتخابات میں ان کے مدِمقابل سخت گیر نظریات کے حامل محمود احمدی نژاد دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے جن کی کامیابی کے خلاف اصلاح پسندوں کے احتجاج کی لہر اٹھی تھی جو باقاعدہ تحریک میں بدل گئی۔
اس احتجاجی تحریک کو ایران میں ’سبز انقلاب‘ کا عنوان بھی دیا گیا تھا، جس میں یہ میر حسن موسوی اور مہدی کروبی اصلاح پسندوں کے سرکردہ رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔
نتائج توقع کے برخلاف بھی ہوسکتے ہیں؟
’رائٹرز‘ کے مطابق اگر جمعے کو ہونے والے انتخابات میں ابراہیم رئیسی کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس بات کا امکان بڑھ جائے گا کہ وہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای کے جانشین ہوں گے۔
واضح رہے کہ علی خامنہ ای بھی رہبرِ اعلیٰ بننے سے قبل دو مرتبہ صدر منتخب ہو چکے ہیں۔
ایران میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس بطور جج ابراہیم رئیسی کے 1988 میں مبینہ طور پر ہزاروں سیاسی مخالفین کو سزائے موت دینے کے فیصلوں کے ناقد ہیں۔
رئیسی کو 2019 میں خامنہ ای نے چیف جسٹس مقرر کیا تھا۔
اگرچہ اب تک کے جائزوں اور تجزیات میں ابراہیم رئیسی کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن اس سے پہلے بھی ایران میں غیر متوقع نتائج سامنے آ چکے ہیں۔
سن 2005 کے صدارتی انتخاب میں محمود احمدی نژاد نے سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کو شکست دی تھی جو اس وقت فیورٹ امیدوار تصور کیے جاتے تھے۔
تہران میں مقیم سیاسی تجزیہ کار سعید لیلاز کا ’رائٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعید جلیلی حیران کر سکتے ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران کی جوہری اور خارجہ پالیسی کا حتمی تعین تو ایران کے رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای ہی کرتے ہیں، لیکن ایک سخت گیر صدر کے انتخاب کی صورت میں ان کے ہاتھ مزید مضبوط ہوں گے۔
حالیہ انتخابات میں گزر بسر کے لیے پریشان ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے امیدواروں نے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کرنے اور کم آمدن والے ایرانیوں کو نقد مدد دینے جیسے انتخابی وعدے کیے ہیں۔اگرچہ ان وعدوں پر کیسے عمل درآمد ہوگا اس کی تفصیل امیدوار سامنے نہیں لا سکے ہیں۔
اس کے علاوہ تمام ہی امیدوار مغربی ممالک کے ساتھ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی بحالی چاہتے ہیں۔
لیکن، جدت پسند امیدوار عبدالناصر ہمتی کا کہنا ہے کہ سخت گیر امیدوار مغرب کے ساتھ کشیدگی بڑھانا چاہتے ہیں کیوں کہ اقتصادی پابندیوں سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔
عبدالناصر ہمتی کا کہنا ہے کہ اگر سخت گیر اقتدار میں آئے تو دنیا زیادہ یکسو ہو کر ایران پر پابندیاں عائد کرے گی۔
نوجوان ووٹر کیا کہتے ہیں؟
صدارتی انتخابات کے سبھی امیدوار اپنی مہم میں نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کی کل آبادی میں 30 سال سے کم افراد کی تعداد 60 فی صد ہے۔
ایران کے رہبر اعلیٰ خامنہ ای کے ٹوئٹر اور انسٹاگرام کے اکاؤنٹس پر ہزاروں فالوورز ہیں جب کہ ایران کے اندر سرکاری سطح پر ان پلیٹ فارمز پر پابندی عائد ہے۔
ایران میں کئی نوجوان سماجی رابطے کے ان پلیٹ فارمز تک رسائی کے لیے ’ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک‘ (وی پی این) کا استعمال کرتے ہیں۔ نوجوان ان پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق نوجوانوں کا کہنا ہے کہ امیدواروں کو جب نوجوانوں کی حمایت کی ضرورت پڑی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر عائد پابندیاں ہٹانے کی بات کرتے ہیں۔
ایران کے اندر اور باہر سیکڑوں ایرانی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کر رہے ہیں۔ ان میں 1979 کے ایرانی انقلاب کے دوران قتل ہونے والوں کے لواحقین بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران ایرانیوں نے #NoToIslamicRepublic کا ہیش ٹیگ بھی ٹوئٹ کیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال اور امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے دوران پاسدرانِ انقلاب کی جانب سے یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرانے کا معاملہ بھی انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔