ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی، ناروے میں مظاہرے کے دوران دو زخمی، 90 گرفتار

ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف استنبول میں مظاہرے میں شریک خواتین

یورپی ملک ناروے کی پولیس نے بتایا کہ دارالحکومت اوسلو میں ایران کے سفارت خانے کے قریب ایک مظاہرے کے دوران ہونے والی جھڑپوں کے بعد جمعرات کو دو افراد کو ہلکے سے زخم آئے جبکہ 90 دیگر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ایران کی اخلاقی پولیس کے زیرحراست رہنے والی خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں مظاہرین سراپا احتجاج ہیں اور ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر کئی شہروں میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کئی درجن مظاہرین، جن میں سے کچھ کرد پرچم میں لپٹے ہوئے تھے، سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے تاکہ ایران میں ایک کرد خاتون مہسا امینی سے اخلاقی پولیس کے سلوک اور عراقی کردستان میں ایرانی حملوں کے خلاف احتجاج کریں۔

خبر کے مطابق کچھ مظاہرین نے سفارت خانے کے احاطے میں گھسنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن فوٹیج میں لوگوں کو اشیاء پھینکتے اور دوسروں کو لاٹھیوں سے مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

پولیس اہلکار ایرلڈ جورنڈ لینڈ نے جائے وقوعہ پر موجود صحافیوں کو بتایا کہ تقریباً 90 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ویو 360 | کیا ایران میں احتجاج سے حکومت تبدیل ہو سکتی ہے؟ | بدھ، 28 ستمبر 2022 کا پروگرام

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں جن پر برلن میں مہسا امینی کی تصاویر ہیں۔ ترکی بھی ان 70 ملکوں میں شامل ہیں جہاں ایران میں خاتون کی ہلاکت کے بعد مظاہرے کیے گئے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بھی ایک احتجاج شروع ہوا جہاں خواتین نے ایرانی سفارت خانے کے باہر بینرز کے ساتھ ریلی نکالی جس پر لکھا تھا: "ایران اٹھ چکا ہے، اب ہماری باری ہے!" اور "کابل سے ایران تک، آمریت کو نہ کہو!"

اے ایف پی کے ایک نمائندے نے رپورٹ کیا کہ حکمران سخت گیر اسلام پسند طالبان کی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی ، پھر تیزی سے بینرز چھین لیے اور انہیں پھاڑ دیا۔

تہران نے جمعرات کو فرانس کی جانب سے احتجاج کی حمایت میں بیان پر اسے ایرانی اندرونی معاملات میں "مداخلت" قرار دیتے ہوئےاس کی مذمت کی۔ تہران نے اس سے قبل برطانیہ اور ناروے سے بھی شکایت کی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایران میں احتجاجی لہر، خواتین کے حقوق موضوعِ بحث

ملک کے فلم سازوں، کھلاڑیوں، موسیقاروں اور اداکاروں نے مظاہروں کےلیے حمایت کا اظہار کیا ہے۔ ایران کی قومی فٹ بال ٹیم نے ویانا میں ہونے والے سینیگال کے خلاف اپنے میچ سے قبل ترانے بجائے جانے کے دوران سیاہ ٹریک سوٹ پہن رکھے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اسے ایک اشارے کے طور پر دیکھا۔

ایرانی نیوز ایجنسی اسنا کے مطابق تہران کے صوبائی گورنر محسن منصوری نے کہا ہے کہ ان مشہور شخصیات کے خلاف کارروائی کی جائے گی جنہوں نے فسادات کے شعلوں کو ہوا دی۔"

ملک کی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجی نے بھی الزام لگایا ہے کہ جو لوگ نظام کے اندر سے مشہور ہوئے ہیں انہوں نے مشکل وقت میں دشمن کا ساتھ دیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایران میں احتجاجی مظاہروں پر امریکی سینیٹرز کیا کہتے ہیں؟

ایران نے تقریباً دو ہفتوں سے جاری مظاہروں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کریک ڈاؤن کو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ’’بے رحمانہ تشدد‘‘ قرار دیا ہے۔

بائیس سالہ کرد خاتون مہسا امینی 16 ستمبر کو لباس کے کوڈ کی معمولی سی خلاف ورزی کی وجہ سے گرفتار ہونے کے تین دن بعد انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین کے نعروں میں "عورت، زندگی، آزادی" شامل ہیں۔

ان مظاہروں کو ایران میں ہونےوالے گزشتہ تین برسوں کے سب سے بڑے مظاہرے قرار دیا گیا ہے۔ کئی خواتین نے مظاہروں میں اپنے سر کے اسکارف کو جلایا اور اپنے بال کاٹے ہیں۔