ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بیماری کے بعد رواں ماہ ایک تقریب میں شرکت کی۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ان کی صحت سے متعلق مختلف اطلاعات کی وجہ سے ایران میں یہ سوال اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے کہ ان کا جانشین کون ہوگا؟
دو ہفتے تک اپنی بیماری کے باعث سرکاری مصروفیات ترک کرنے کے بعد سید علی خامنہ ای رواں ماہ 17 ستمبر کو ایک مذہبی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ یہ تقریب ایران کے سرکاری ٹی وی پر بھی نشر کی گئی تھی۔
اس تقریب سے ایک روز قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر نے اپنی شدید بیماری کے باعث گزشتہ ہفتے کے دوران عوامی تقریبات میں شرکت اور تمام سرکاری مصروفیات منسوخ کردی تھیں۔
امریکی اخبار نے صورتِ حال سے واقفیت رکھنے والے افراد کے حوالے سے بتایا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کی زیرِ نگرانی آرام کررہے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای کی عمر 83 برس ہوچکی ہے۔ انہیں ماضی میں بھی صحت سے متعلق مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے۔ 2014 میں پروسٹیٹ کینسر کے علاج کے لیے ان کا ایک آپریشن بھی ہو چکا ہے۔
ایران میں سپریم لیڈر یا ’رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی‘ ایک تاحیات منصب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خامنہ ای کی صحت کو درپیش خدشات کے باعث ایران میں اب ان کی جانشینی کے فوری سوال سے متعلق قیاس آرائیاں اور چہ مگوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔
ایران میں انقلاب کے بعد صرف ایک مرتبہ اس منصب پر انتقالِ اقتدار ہوا ہے۔ 1989 میں ایران کے انقلاب کی قیادت کرنے والے اور پہلے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انتقال کے بعد سید علی خامنہ ای نے یہ منصب سنبھالا تھا۔
خبر رساں ادارے' اے ایف پی' کے مطابق برسلز میں قائم ایٹوپیا تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے ایران کی تاریخ و سیاست کے ماہر جوناتھن پرون کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کس طرح ایران میں قائم رجیم کے مفادات کا تحفظ کیاجائے۔
سپریم لیڈر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
ایران میں اگرچہ صدارتی نظام ہے اور چار سال مدت کے لیے عام انتخابات کے ذریعے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ لیکن اختیار اور اقتدار کا مرکز اور منبع سپریم لیڈر کا منصب ہے۔
ایران کے آئین کی دفعہ 60 کے تحت صدر اور وزرا انتظامی امور چلاتے ہیں، ماسوائے ان امور کے جو براہِ راست سپریم لیڈر کے دائرہٴ اختیار میں آتے ہیں۔
ایران میں آیت اللہ خمینی کی زیرِ قیادت 1979 میں آنے والے انقلاب کے بعد بادشاہت کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد ایران کے ریاستی و حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی کی گئی تھی اور آیت اللہ خمینی نے رہبر معظم یا سپریم لیڈر کا عہدہ تشکیل دیا تھا۔
ایران میں ریاست کے تین بنیادی ادارے مقننہ یعنی پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ سے متعلق فیصلوں میں براہِ راست یا بالواسطہ حتمی اختیار سپریم لیڈر کے پاس ہے۔
سپریم لیڈر کا انتخاب اور ضرورت پڑنے پر انہیں ہٹانے کا اختیارمجلس خبرگان یا ’اسمبلی آف ایکسپرٹس‘ نامی کونسل کرتی ہے جس کے 88 ارکان ہوتے ہیں۔ ہر آٹھ سال بعد اس کونسل کے ارکان براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔
مجلسِ خبرگان کے انتخابات میں صرف مذہبی علما اور مذہبی رجحان رکھنے والے افراد ہی کو بطور امیدوار حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔
سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے والی مجلسِ خبرگان کی رکنیت کے لیے امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ ایک اور طاقت ور گارجین کونسل یا ’شوریٰ نگہبان‘ کرتی ہے۔ یہ ایران کی سب سے طاقت ور کونسل ہے۔
آئین کے مطابق ملک کی سلامتی، خارجہ پالیسی، عدلیہ اور مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری اور صدر کے انتخاب کی حتمی توثیق سمیت ملک کی سب سے بااختیار 12 رکنی شوریٰ نگہبان کے چھ ارکان کا تقرر بھی سپریم لیڈر کرتے ہیں۔
شوریٰ نگہبان ایران کا سب سے بااختیار ادارہ اس لیے تصور کیا جاتا ہے کہ انتخابی نتائج کی توثیق ،صدارتی امیدواروں اور ارکانِ پارلیمنٹ کی اہلیت جیسے بنیادی فیصلے یہ کونسل کرتی ہے۔
اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کی بھی شوریٰ نگہبان سے توثیق ضروری ہے۔ شوریٰ کے پاس کسی قانون کو منظور کرنے یا نہ کرنے کے لیے 20 روز کا وقت ہوتا ہے جس کے بعد قانون از خود مںظور تصور کیا جاتا ہے۔
اس 12 رکنی کونسل میں چھ مذہبی عالم شامل ہوتے ہیں جن کا تقرر سپریم لیڈر کرتے ہیں جب کہ چھ قانونی ماہرین کو وزارتِ قانون نامزد کرتی ہے شوریٰ نگہبان کے ارکان کے عہدے کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔
ایران کے سیاسی امور کے ماہر جوناتھن پرون کے مطابق سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے والی مجلسِ خبرگان کے ارکان زیادہ سخت گیر نظریات کے حامل ہوتے ہیں۔ اس وقت اس مجلس کے سربراہ 95 سالہ مذہبی عالمی آیت اللہ احمد جنتی ہیں۔
جوناتھن پرون کا کہنا ہے کہ سپریم لیڈر کے عہدے کی اہمیت اور اسے حاصل اختیارات کی وجہ سے یہ بعید از قیاس نہیں کہ مجلس خبرگان کے ارکان نے مستقبل کی صورتِ حال پر غور شروع کردیا ہو۔
ان کے مطابق خامنہ ای کی جانشینی کے لیے ایران کی سیکیورٹی اور معیشت کنٹرول کرنے والی مسلح افواج کے ریولوشنری گارڈز یا پاسدارانِ انقلاب کی رائے کو بھی اہمیت حاصل ہوگی۔
جانشینی کے مضبوط امیدوار
گزشتہ برس جب ابراہیم رئیسی نے ایران کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا، اسی وقت سے انہیں ملک کے آئندہ سپریم لیڈر کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
جوناتھن پرون کے مطابق کئی ایسے شواہد ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابراہیم رئیسی کو اس منصب کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔
ان کے نزدیک رئیسی کو موجودہ سپریم لیڈر کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور وہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط حلقوں سے قریبی روابط رکھتے ہیں۔
کئی ماہرین کے نزدیک 2021 میں بطور صدر رئیسی کا انتخاب سپریم لیڈر کی منصب کی جانب بڑھتا ہوا ایک اور قدم تھا۔ اس سے قبل وہ اہم ترین عہدوں پر رہ چکے ہیں جن میں ایران میں قائم روضۂ امام رضا فاؤنڈیشن کی صدارت میں وسیع مالیاتی تجربے سے لے کر عدلیہ کے سربراہ تک کے اہم ترین عہدے شامل ہیں۔ ان اہم ذمے داریوں کے بعد وہ ایران کے صدر بھی منتخب ہوچکے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1989 میں جب آیت اللہ خامنہ ای کو سپریم لیڈر منتخب کیا گیا تھا تو اس وقت وہ بھی ایران کے صدر تھے۔ ابراہیم رئیسی کو اس لیے بھی سپریم لیڈر کے لیے مضبوط امیدوار تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اس منصب کے لیے انتخاب کرنے والی مجلسِ خبرگان کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رئیسی کے لیے صدارت سپریم لیڈر بننے کے لیے اسی وقت مددگار ثابت ہوگی جب وہ اس عہدے پر کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوں گے۔ اگر وہ عوامی حمایت حاصل نہیں کرسکے تو مذہبی پیشوا بھی ان کے حامی نہیں رہیں گے۔
جوناتھن پرون کا کہنا ہے کہ اس وقت رئیسی کو معاشی بحران اور رواں ماہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد تیزی سے پھیلتی ہوئی احتجاجی لہر کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
پسِ پردہ طاقت ور شخص
گزشتہ چند برسوں سے آیت اللہ خامنہ ای کے جانشین کے طور پر ان کے بیٹے مجبتیٰ خمینی کا نام بھی گردش میں ہے۔ انہیں بہت محتاط لیکن انتہائی بارسوخ تصور کیا جاتا ہے۔
جوناتھن پرون کےمطابق مجتبیٰ خامنہ ای نے طاقت ور حلقوں میں ذاتی روابط بنائے ہیں۔ وہ پاسدارانِ انقلاب کے کئی کمانڈرز کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔
مجتبیٰ خامنہ ای سپریم لیڈر کے دفتر ’بیتِ رہبری‘ کے سربراہ ہونے کی وجہ سے ایرانی نظامِ حکومت میں مرکزی کردار رکھتے ہیں۔
بیت رہبری بنیادی طور پر سپریم لیڈر کے مشیروں کے گروپ پر مشتمل ہے جسے ایران میں متوازی ریاست کی حیثیت حاصل ہے۔
ماہرین کے مطابق بیتِ رہبری اپنے اقدامات کے لیے کسی اور ادارے کو جواب دہ نہیں اور یہ سپریم لیڈر کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کئی سیاسی کھیل کھیلتا ہے۔
جوناتھن پرون کے مطابق مجتبیٰ خامنہ ای بیتِ رہبری کے لیے منتخب نہیں ہوئے بلکہ ان کے والد نے ہی ان کا تقرر کیا تھا کیوں کہ خامنہ ای انتہائی وفادار افراد کو اپنے قریب رکھنا چاہتے تھے۔
مجبتیٰ خامنہ ای کے ناقدین انہیں بدعنوان قرار دیتے ہیں اور ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سپریم لیڈر سے اپنے رشتے کی بنیاد پر کئی معاشی فوائد حاصل کیے ہیں۔
ایران میں جہاں عوام کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے وہیں بااختیار افراد کی کرپشن کے قصے بھی عام ہیں۔ ان میں خاص طور پر مجتبی خامنہ ای کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں اسی بنا پر طنزاً ’آقا زادہ‘ بھی کہا جانے لگا ہے۔
حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں مجبتیٰ خامنہ ای کا نام لے کر بھی نعرے بازی کی جارہی ہے۔ ایران کی رضا کار فورس بسیج سے مجبتیٰ خامنہ ای کے قریبی تعلق کو اس کی وجہ بتایا جاتا ہے۔
بسیج سپریم لیڈر کی سب سے وفادار فورس تصور ہوتی ہے اور یہ حکومت مخالف مظاہروں کو کچلنے میں کلیدی کردار ادا کرتی آئی ہے۔
اس کے علاوہ بعض علما مذہبی تعلیم میں مجبتیٰ خامنہ ای کی اہلیت پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ مجبتیٰ خامنہ اس وقت ’حجت اسلام‘ہیں جو شیعہ علما میں ایک درمیانے درجے کے عالم کے لیے استعمال ہونے والا لقب ہے۔
تاہم ایران میں سپریم لیڈر کے لیے ’آیت اللہ‘ ہونا ضروری ہے۔ یہ لقب مذہبی علوم میں اعلیٰ درجہ کی اہلیت رکھنے والے علما کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لقب مذہبی تعلیم کے لیے برسوں وقف کرنے والے اور مذہبی تعلیمی اداروں کی سربراہی کرنے والے افراد کو ملتا ہے۔
مستقبل کیا ہوگا؟
سپریم لیڈر کے لیے مطلوبہ اہلیت کے مختلف پیمانوں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے مجتبیٰ خامنہ ای کے لیے اپنے والد کی جانشینی کا حصول آسان نہیں ہوگا۔ جوناتھن پرون کے مطابق عام طور پر سپریم لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑوں میں جاری رسہ کشی سے خود کو دور رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق یہی وجہ تھی کہ خامنہ ای ماضی میں دست و گریبان ہونے والے سخت گیر عناصر سے نمٹنے میں کامیاب رہے۔ لیکن ایران میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مجبتیٰ خامنہ ایسی کسی صورتِ حال میں غیر جانب دار نہیں رہ پائیں گے۔
ان اسباب کی وجہ سے غالب امکان یہی ہے کہ مجتبیٰ خامنہ ای کو کوئی اور اہم مقام حاصل ہوجائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ میں اپنے تعلقات کی وجہ سے پس پردہ رہ کر کوشش کریں گے کہ کوئی سخت گیر نظریات کا حامل شخص ہی ان کے والد کی جگہ لے۔
اس لیے جوناتھن پرون کے بقول، اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی اصلاح پسند یا معتدل فکر کا حامل رہنما ایران کا سپریم لیڈر بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران میں قائم نظامِ حکومت کی بقا سپریم لیڈر کے منصب سے جڑی ہے۔ اس لیے پورے یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خامنہ ای کے بعد پیدا ہونے والی ہر ممکن صورتِ حال کا جائزہ لیا جارہا ہوگا اور کسی بھی انتشار سے بچنے کے لیے پس پردہ غور و فکر شروع ہوچکا ہوگا۔
البتہ پس پردہ مشاورت کن مراحل میں ہے؟ اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں کہی جاسکتی۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔