جوہری پروگرام پر 10 سال بعد کوئی پابندی قبول نہیں، ایران

ایران کے نائب وزیرِ خارجہ عباس ارقچی نے واضح کیا کہ جوہری معاہدے کے باوجود ایران مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کی "ہر ممکن" مدد جاری رکھے گا۔

ایرانی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے میں درج قدغنیں اور اقتصادی پابندیاں 10 سال کے بعد قبول نہیں کرے گا۔

پیر کو تہران میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایران کے نائب وزیرِ خارجہ عباس ارقچی نے واضح کیا کہ جوہری معاہدے کے باوجود ایران مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کی "ہرممکن" مدد جاری رکھے گا۔

ایرانی حکومت کے اعلیٰ رہنماؤں کی جانب سے جوہری معاہدہ طے ہونے کے بعد سے تواتر سے ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں جن میں معاہدے کو ایران کی اہم سفارتی کامیابی اور اس میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے کم اہم ہونے کا تاثر دیا جارہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام کے ان بیانات کا مقصد ایران کے سخت گیر حلقوں اور مذہبی اشرافیہ کو معاہدے کی حمایت پر آمادہ کرنا ہے جو انقلاب کے بعد سے ایران کی مغرب مخالف خارجہ پالیسی کے اصل تخلیق کار اور حامی ہیں اور اس میں کسی تبدیلی کی سخت مخالفت کرتے آئے ہیں۔


بدھ کو ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی پریس کانفرنس میں عباس ارقچی نے خبردار کیا کہ اگر عالمی طاقتوں نے معاہدے میں دی جانے والی 10 سالہ مدت کے بعد ایران پر عائد پابندیوں میں توسیع کی کوشش کی تو معاہدہ ٹوٹ جائے گا۔

ایرانی نائب وزیرِ خارجہ پیر کو سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی اس قرارداد کا حوالہ دے رہے تھے جس میں کونسل کے تمام 15 ارکان نے متفقہ طور پر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی توثیق کی تھی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اگر ایران نے آئندہ 10 برسوں کے دوران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اس پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد کی جانے والی تمام پابندیاں موثر ہوجائیں گی۔

قرارداد کے مطابق اگر ایران معاہدے پر عمل پیرا رہا تو اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی تمام شقیں اور اقدامات 10 سال بعد ختم ہوجائیں گی۔

لیکن ایران سے مذاکرات کرنے والے چھ ملکوں – امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی – اور یورپی یونین کے نمائندوں نے گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون کو بتایا تھا کہ وہ 10 سالہ مدت کی تکمیل کے بعد معاہدے میں مزید پانچ سال کی توسیع کی کوشش کریں گے۔

اپنی پریس کانفرنس میں عباس ارقچی نے عالمی طاقتوں کے نمائندوں کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کی ترجیح اپنے قومی مفادات کا تحفظ ہے نہ کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں۔

انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ جوہری معاہدے کی مدت 10 سال ہوگی جس کے بعد سلامتی کونسل میں ایران کا معاملہ ختم ہوجائے گا۔

اس سے قبل پیر کو سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عباس ارقچی نے کہا تھا کہ خطے میں ایران کے اتحادیوں کو جب بھی اسلحے کی ضرورت ہوئی، تہران ان کی اس ضرورت کو پورا کرے گا اور اتحادیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے اقدام پر ایران کو کوئی شرمندگی نہیں۔

ارقچی ایران کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے چھ عالمی طاقتوں کے نمائندوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر اتفاقِ رائے کےلیے مذاکرات کیے تھے۔