ایران میں اہم پارلیمانی انتخابات جمعہ کو

صدر حسن روحانی

تاہم یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ انتخابات میں فتح اصلاح پسندوں کو ملتی ہے یا قدامت پسندوں کو، طاقت کا سرچشمہ تبدیل نہیں ہوگا۔

ایران میں جمعہ کو نئی پارلیمنٹ اور مجلس خبرگان رہبری کے لیے انتخابات ہونے جا رہے ہیں جنہیں عالمی طاقتوں سے تہران کے جوہری معاہدے اور اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد بیرونی دنیا سے اقتصادی و تجارتی راہیں کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر حسن روحانی کو توقع ہے کہ نئی پارلیمنٹ ایران کی دنیا کے ساتھ تجارتی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ان کی خواہش کی حمایت کرے گی۔

تاہم یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ انتخابات میں فتح اصلاح پسندوں کو ملتی ہے یا قدامت پسندوں کو، طاقت کا سرچشمہ تبدیل نہیں ہوگا۔

ایران کے پیرانہ سال رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی صحت بھی اچھی نہیں لہذا ہو سکتا ہے کہ مجلس خبرگان رہبری، جس کا ایک اہم کام رہبر اعلیٰ کے امور کی نگرانی اور انتخاب ہوتا ہے، علی خامنہ ای کے جانشین کا انتخاب کرے۔ یہ مجلس 80 مذہبی دانشوروں پر مشتمل ہوتی ہے۔

رہبر اعلیٰ ایران کا اعلیٰ ترین سیاسی و مذہبی منصب ہوتا ہے جس کے ذمے 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد قائم کی گئی ملائیت کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای تمام حکومتی، فوجی، میڈیا کے امور پر کنٹرول رکھتے ہیں اور ملک کی خارجہ پالیسی، عسکری و دفاعی اور جوہری پالیسی سے متعلق حتمی فیصلہ دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔

پاسداران انقلاب ایک طاقتور نظریاتی فوج ہے جو رہبر اعلیٰ کو غیر ملکی مداخلت اور ان کے خلاف فوجی بغاوت کو کچلنے کی ذمہ دار ہے۔

رہبر اعلیٰ صدر کو توثیق کی سند دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

شوریٰ نگہبان میں رہبر اعلیٰ کی طرف سے چھ مذہبی فقہا کو مقرر کیا جاتا ہے جب کہ چھ عالم علما بھی اس میں شامل ہوتے ہیں جنہیں عدلیہ کے سربراہ نامزد کرتے ہیں۔ اس سربراہ کا تعین بھی رہبراعلیٰ ہی کرتے ہیں۔

یہ نگہبان اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور کون نہیں اور انھیں رہبر اعلیٰ کا ہی "آدمی" تصور کیا جاتا ہے۔

پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد 290 ہے اور اس ادارے کا کام قانون سازی، معاہدوں کی توثیق اور حکومتی اخراجات کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔

ایران میں صدر کو بھی انتخاب کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے جو کہ اعلیٰ ترین منتخب منصب ہوتا ہے اور وہ حکومت کے تمام امور کا انتظامی امور اور قومی سلامتی کونسل کے علاوہ ثقافتی انقلاب کی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے، جس کے ذمے اسلامی جمہوریہ کی مذہبی تشخص کو برقرار رکھنا ہے۔

تاہم صدر بھی رہبر اعلیٰ کو جوابدہ ہیں جب کہ پارلیمنٹ انھیں منصب سے ہٹانے کی شفارش کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

شوریٰ نگہبان نے رواں ماہ ہی انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند تقریباً 12 ہزار امیدواروں میں سے نصف کو مسترد کر دیا تھا جن میں اکثریت اعتدال پسندوں کی ہے۔