ٹائم میگزین نے جمعرات کو ایرانی انسانی حقوق کی کارکن اور وائس آف امریکہ کی ایک میزبان مسیح علی نژاد کو اپنے آبائی ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے پر پبلی کیشن کی جانب سے سال کی 12 بہترین خواتین میں شامل کیا ہے۔
ٹایم میگزین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان خواتین کا تعلق دنیا بھر سے ہے اور انہوں نے اپنی اپنی کمیونٹیز اور شعبوں پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔
ٹائم کی ایگزیکٹو ایڈیٹر نینا باجیکل اور سینئر ایڈیٹر لوسی فیلڈمین نے کہا کہ یہ فہرست ان خواتین لیڈوں کو سامنے لاتی ہے جو مساوی بنیاد پر دنیا کا نظام قائم کرنے کی جدو جہد میں اپنی آواز اٹھا رہی ہیں۔
علی نژاد 2009 سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ٹائم نے لکھا ہے کہ وہ ایران میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرتی ہیں۔ یہ مظاہرے گزشتہ سال ستمبر میں ایک 22 سالہ کرد نژاد خاتون کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف شروع ہوئے تھے۔ پولیس نے اسے اپنے بھائی کے ساتھ تہران آتے ہوئے یہ الزام لگا کر گرفتار کیا تھا کہ اس نے خواتین کے لباس سے متعلق حکومتی ضابطے کے مطابق اپنے سر کو حجاب سے ڈھانپا نہیں ہے۔
ایران میں ملک گیر سطح پر ہونے والے ان مظاہروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد سے یہ احتجاج آیت اللہ علی خامنہ ای کی زیر قیادت حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
SEE ALSO: ایرانی نژاد امریکی صحافی مسیح نژاد کے قتل کی سازش میں تین افراد گرفتارعلی نژاد نے ٹائم کو بتایا، "ایران کی خواتین ان کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔"
علی نژاد ایرانی حکومت کے اندر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں کو منظر عام پر لاتی ہیں اور خواتین کے لیے حجاب کو لازمی قرار دینے والے ایرانی قوانین کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک تحریک کی قیادت کرتی ہیں ۔
ان کے کام کی وجہ سے انہیں اغوا کرنے اور زبردستی ایران واپس لے جانے کی سازش کا نشانہ بنانے اور ان کی جان لینے کی کم از کم ایک کوشش ہوئی ہے اور دونوں کا براہ راست ایرانی حکومت سے تعلق تھا۔
2021 میں، امریکی محکمہ انصاف نے علی نژاد کے اغوا کی سازش کا الزام چار ایرانی شہریوں پر لگایا، جو مبینہ طور پر ایرانی انٹیلی جنس ایجنٹس تھے۔ اگست 2022 میں، ایف بی آئی نے اسالٹ رائفل سے لیس ایک شخص کو گرفتار کیا جو دو دن سے علی نژاد کے گھر کے باہر چھپا ہوا تھا اور جس نے ایک موقع پر گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔
علی نژاد نے وی او اے کو بتایا کہ انہیں تقریباً روزانہ اس وجہ سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں، کیونکہ انہوں نے ان خواتین کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے جو صرف یہ چاہتی ہیں کہ وہ 21ویں صدی کی ایک عام زندگی گزار سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’میں صرف اپنا کام کرتی ہوں۔اسلامی جمہوریہ کی نظر میں محض صحافی ہونا ایک جرم ہے‘‘۔
(وی او اے نیوز)