قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ سنی مظاہرین کے کئی مطالبات میں سے ایک ہے۔
واشنگٹن —
عراق کی حکومت نے اپنے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں کے خاتمے کے لیے خیر سگالی کے طور پر انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار 300 سے زائد قیدیوں کو رہا کردیا ہے۔
عراق میں گزشتہ تین ہفتوں سے سنی العقیدہ مسلمانوں کی جانب سے وزیرِ اعظم نوری المالکی کی سربراہی میں قائم شیعہ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
حکام کے مطابق مظاہرین کے مطالبے پر پیر کو 335 ایسے قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے جن کی سزا یا تو مکمل ہوگئی تھی یا جن کے خلاف مقدمات عدالتوں نے عدم ثبوت کی بنا پر خارج کردیے تھے۔
سنی رہنمائوں کا الزام رہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کی آڑ میں ان کے ہم عقیدہ افراد کے خلاف انتقامی کاروائیاں کرتی ہیں۔
قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ عراق کے نائب وزیرِ اعظم اور شیعہ اکثریت کے اہم رہنما حسین الشاہرستانی کی سربراہی میں قائم ایک وزارتی کمیٹی نے کیا۔
قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ سنی مظاہرین کے کئی مطالبات میں سے ایک ہے۔ مظاہرین وزیرِاعظم سے مستعفی ہونے، سابق صدر صدام حسین کی کالعدم قرار دی گئی جماعت 'بعث پارٹی' کے سابق ارکان کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے خاتمے اور ان کے لیے عام معافی کے مطالبات بھی کر رہے ہیں۔
ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں کے علاوہ ہزاروں مظاہرین گزشتہ کئی روز سے عراق کے سنی اکثریتی صوبے 'الانبار' کے مرکزی شہر رمادی کے نزدیک اردن اور شام جانے والی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
مظاہروں کا آغاز دسمبر میں حکومت کی جانب سے ملک کے سنی العقیدہ وزیرِ خزانہ کے محافظوں کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت حراست میں لینے کے ردِ عمل میں ہوا تھا۔
سنی رہنمائوں نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ گرفتاریاں ان کے خلاف جاری انتقامی کاروائیوں کا حصہ ہے جب کہ حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
عراق میں گزشتہ تین ہفتوں سے سنی العقیدہ مسلمانوں کی جانب سے وزیرِ اعظم نوری المالکی کی سربراہی میں قائم شیعہ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
حکام کے مطابق مظاہرین کے مطالبے پر پیر کو 335 ایسے قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے جن کی سزا یا تو مکمل ہوگئی تھی یا جن کے خلاف مقدمات عدالتوں نے عدم ثبوت کی بنا پر خارج کردیے تھے۔
سنی رہنمائوں کا الزام رہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کی آڑ میں ان کے ہم عقیدہ افراد کے خلاف انتقامی کاروائیاں کرتی ہیں۔
قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ عراق کے نائب وزیرِ اعظم اور شیعہ اکثریت کے اہم رہنما حسین الشاہرستانی کی سربراہی میں قائم ایک وزارتی کمیٹی نے کیا۔
قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ سنی مظاہرین کے کئی مطالبات میں سے ایک ہے۔ مظاہرین وزیرِاعظم سے مستعفی ہونے، سابق صدر صدام حسین کی کالعدم قرار دی گئی جماعت 'بعث پارٹی' کے سابق ارکان کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے خاتمے اور ان کے لیے عام معافی کے مطالبات بھی کر رہے ہیں۔
ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں کے علاوہ ہزاروں مظاہرین گزشتہ کئی روز سے عراق کے سنی اکثریتی صوبے 'الانبار' کے مرکزی شہر رمادی کے نزدیک اردن اور شام جانے والی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
مظاہروں کا آغاز دسمبر میں حکومت کی جانب سے ملک کے سنی العقیدہ وزیرِ خزانہ کے محافظوں کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت حراست میں لینے کے ردِ عمل میں ہوا تھا۔
سنی رہنمائوں نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ گرفتاریاں ان کے خلاف جاری انتقامی کاروائیوں کا حصہ ہے جب کہ حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔