عراق کے دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران مزید 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'فرانس 24' کے مطابق جمعرات کو بغداد میں چھ جب کہ بصرہ میں چار افراد سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
جمعرات کو مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے بغداد کے شہداء برج پر پہنچ گئے۔ جہاں سیکورٹی فورسز نے ان پر فائرنگ کر دی۔ تیل کے ذخائر سے مالا مال شہر بصرہ میں بھی مظاہرین کے گزشتہ کئی روز سے جاری دھرنے میں فائرنگ سے چار افراد ہلاک ہو گئے۔
SEE ALSO: بغداد: احتجاجی مظاہرے، عراق ایران تعلقات میں دراڑیںجنوبی عراق میں بھی درجنوں مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کر دیں جس سے 'ام قصر' بندرگاہ کی جانب جانے والے راستے بھی بند ہو گئے۔ راستوں کی بندش سے بندرگاہ سے آںے والی اشیائے خورونوش سے لدی متعدد مال بردار گاڑیوں بھی پھنس گئیں۔ حکام کے مطابق احتجاج کے بعد بندرگاہ کو کھول دیا گیا ہے۔
احتجاجی مظاہروں کے پیشِ نظر حکومت نے انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے بھی جزوی طور پر بند کر رکھے ہیں۔ نجی کاروباری شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس بندش سے خاص طور پر بینکنگ کا شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔ کاروباری طبقے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش کے باعث سیاحت، ایئر لائنز، موبائل فون کمپنیز اور رقوم کی منتقلی کے مراکز کو لگ بھگ 1.5 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
عراق میں گزشتہ کئی روز سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ ان مظاہروں میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے جو بہتر روزگار، بجلی اور پانی کی سہولیات کی عدم فراہمی اور طرز حکمرانی پر نالاں ہیں۔ ان مظاہرین کا موقف ہے کہ تیل کے ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود عراقی عوام بنیادی سہولیات اور روزگار سے بھی محروم ہیں جب کہ ایک خاص طبقہ ان وسائل پر قابض ہے۔
یہ احتجاجی مظاہرے دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پھیل گئے تھے۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک 250 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق مظاہرین کی جانب سے ناصریہ میں موجود بڑی آئل ریفائنری سے آنے والے آئل ٹینکرز کو بھی روک لیا گیا۔ جس سے جنوبی عراق کے مختلف شہروں میں تیل کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
عراقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں کی بہبود کے لیے اصلاحات پر کام کر رہی ہے۔ البتہ مظاہرین کے بقول انہیں مطمئن کرنے کے لیے تاحال حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
ماہرین کے مطابق غریب شہریوں کے لیے وظیفے، گریجویٹ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقعے اور بدعنوان سرکاری افسران کے خلاف کارروائی مظاہرین کے مطالبات میں شامل ہیں۔
عراق 2003 میں امریکی حملے کے بعد سالہا سال کی خانہ جنگی اور فرقہ ورانہ فسادات کا شکار رہا ہے۔ سابق صدر صدام حسین کے طویل اقتدار کے خاتمے کے باوجود عراقی عوام بدامنی اور دیگر مسائل کے باعث حکمرانوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔
عراق میں جاری احتجاج اس وقت نیا رخ اختیار کر گیا تھا جب ایران کے رہبر اعلٰی آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے عراق کے مظاہروں سے متعلق بیان پر مشتعل مظاہرین نے کربلا میں ایرانی قونصل خانے کے کچھ حصوں کو آگ لگا دی تھی۔ ایران کے رہبر اعلٰی نے کہا تھا کہ عراق میں مظاہرین کے پیچھے غیر ملکی قوتیں کارفرما ہو سکتی ہیں۔