عراق: ووٹنگ، دھماکے، 50 سے زائد افراد ہلاک

فائل

حملہ آوروں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ یہ حملے بغداد کے قرب و جوار اور شہر کے شمال میں ہوئے؛ جب کہ سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے فوجی اور پولیس کے قافلےہدف بنے
ایسے میں جب عراقی فوجی اہل کار 2011ء کے اواخر کے دوران امریکی فوج کے انخلا کے بعد ہونے والے ملک کے پہلے انتخابات میں ووٹ ڈال رہے تھے، پیر کے روز خودکش بم حملوں کے ایک سلسلے میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

بتایا جاتا ہے کہ حملہ آور، جنھوں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں، بغداد کے قرب و جوار اور شہر کے شمال میں حملے کیے، جب کہ سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے فوجی اور پولیس کے قافلوں کو ہدف بنایا گیا، جس میں درجنوں اہل کار زخمی ہوئے۔

مہلک ترین واقعہ اُس وقت پیش آیا جب دارالحکومت کے شمال مشرق میں واقع خانقین کے قصبے میں کُردوں کے سیاسی اجتماع میں ایک خودکش حملہ آور نےآتشیں مواد کو بھک سے اڑا دیا، جس واقع میں 30 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔

یہ لوگ علیل عراقی صدر جلال طالبانی کی ایک وِڈیو دیکھ رہے تھے، جس میں اُنھیں جرمنی میں ووٹ ڈالتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جہاں علاج کی غرض سے وہ اِن دِنوں جرمنی میں ہیں۔

ابھی تک کسی نے اِن حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم، اِس سے قبل سنی شدت پسند گروہ فوجوں اور شیعہ اکثریتی افراد کو ہدف بناتے رہے ہیں۔

پیر کے روز قبل از وقت ووٹنگ کے مرحلے کا آغاز ہوا، جو سہولت اُن ووٹروں کو دی گئی ہے جو بدھ کے دِن کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے قاصر ہوں گے، جن میں مریضوں اور قیدیوں کے علاوہ فوج، اسپتال اور قیدخانوں کا عملہ شامل ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متوقع طور پر ووٹر فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر ووٹ ڈالیں گے، اور یہ کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے۔