سیاست میں مداخلت کی تاریخ؛ جنرل فیض حمید کے خلاف ہی کارروائی کیوں؟

  • تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں سیاست میں مداخلت یا دیگر معاملات پر الزامات ایک عام سی بات ہیں۔ لیکن جنرل فیض اپنے مقاصد کے حصول میں بہت آگے نکل گئے تھے۔
  • بنیادی طور پر جنرل فیض حمید پر الزام ہے کہ اُنہوں نے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے خلاف عمران خان کی جماعت کا ساتھ دیا: تجزیہ کار احمد بلال محبوب
  • دنیا بھر میں 'ڈیپ اسٹیٹ' ہوتی ہے لیکن فیض حمید کے حوالے سے جو کچھ ہوا وہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا: تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر
  • ماضی میں عمران خان کو دباؤ میں لانے کی کوششیں ہو چکی ہیں جو ناکام رہی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اس بار بھی ناکام رہیں گی: تجزیہ کار سلمان عابد

اسلام آباد -- پاکستان کے طاقت ور خفیہ ادارے 'آئی ایس آئی' کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔

اس صورتِ حال میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں پر ماضی میں بھی سیاست میں مداخلت سمیت، کرپشن اور دیگر الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کسی فوجی افسر کے خلاف وہ سخت ایکشن نظر نہیں آیا جو اس وقت فیض حمید کے خلاف نظر آ رہا ہے۔

پاکستان کے سابق آرمی چیف نے بھی اعتراف کیا تھا کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے، لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اب فوج نے بطور ادارہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر سیاست میں مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ لیکن فیض حمید کے بارے میں جو الزامات سامنے آ رہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ فیض حمید اپنے مقاصد کے لیے ادارے کے 'مقاصد' سے آگے نکل گئے تھے۔

بعض ماہرین کے مطابق جنرل فیض حمید نے ایک سیاسی جماعت کو اپنا ہتھیار بنا کر اپنی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی اور جب اس میں ناکام رہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن اپنے ہی ادارے کے خلاف بغاوت اور سیاسی جماعت کو مدِمقابل کھڑا کرنے کے جرم کو معاف نہیں کرے گی۔

جنرل فیض پر کیا الزامات ہیں؟

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر قانون کے مطابق لازم تھا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک سیاست سے دور رہیں اور اس دوران وہ کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ روابط نہیں رکھیں گے۔

اس دوران کوئی معلومات بھی افشا نہیں کریں گے۔ لیکن لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر الزام ہے کہ وہ نہ صرف اپنی سروس کے دوران بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں مزید ملوث ہو گئے اور نو مئی کو پاکستان کی مختلف فوجی تنصیبات پر منظم حملوں میں بھی ان کا کردار تھا۔

ان الزامات کے بارے میں فیض حمید یا ان کے اہل خانہ کی طرف سے اب تک کوئی ردِعمل نہیں آیا تاہم ماضی میں ان کے بھائی نجف حمید ان الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں۔

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر جنرل فیض حمید پر الزام ہے کہ اُنہوں نے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے خلاف عمران خان کی جماعت کا ساتھ دیا۔

اُن کے بقول سیاسی مداخلت ایک اور بات ہے لیکن کسی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر اپنی ہی فوج کے خلاف کام کرنا پہلی مرتبہ ہوا ہے اور میرے خیال میں شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی ہو رہی ہے۔

احمد بلال محبوب کے مطابق ماضی میں آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہونے والے فوجی افسران ریٹائرمنٹ لے کر گھر جانے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ لیکن جنرل فیض پر یہ الزام تھا کہ وہ خود آرمی چیف بننا چاہتے تھے اور ناکامی کے بعد وہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ رابطے میں رہے جو فوج کے ضابطوں کے خلاف تھا۔

تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ صرف سیاسی مداخلت نہیں بلکہ حکومتیں گرانے اور بنانے میں بھی خفیہ ایجنسیاں شامل رہی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب جب جنرل فیض حمید کی بات ہو رہی ہے تو میرا سوال ہے کہ فیض حمید جو کچھ کرتے رہے کیا وہ اپنے باس جنرل قمر جاوید باجوہ کی مرضی کے خلاف کرتے رہے؟ اس سوال کا جواب یقینی طور پر نہیں میں ہے۔ اس لیے اگر فیض حمید کا ٹرائل ہو رہا ہے تو جنرل باجوہ کا کیوں نہیں ہو رہا۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا اس کی منصوبہ بندی کا الزام بھی جنرل فیض پر لگایا جا رہا ہے جس میں اسٹریٹجک مقامات پر باقاعدہ منظم حملے کیے گئے تھے۔

اُن کے بقول ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے اور فوج ان باتوں پر ایک مثال قائم کرنا چاہے گی تاکہ مستقبل میں کوئی بھی افسر ایسا کرنے کا نہ سوچے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان الزامات اور ان کی باقاعدہ سماعت کے بعد انہیں کیا سزا دی جاتی ہے۔ انہیں سزائے موت، عمر قید یا پھر اس سے کچھ کم سزا دی جائے گی، اس کا عدالتی کارروائی کے بعد ہی پتا چلے گا۔

SEE ALSO:

جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ؛ کیا تحریکِ انصاف کی مشکلات بھی بڑھیں گی؟

تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ چھپ کر اور سامنے آ کر سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں 'ڈیپ اسٹیٹ' ہوتی ہے جہاں انٹیلی جینس ادارے ملک کی پالیسیوں کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور حکومت پر اثرانداز ہوتے ہیں لیکن فیض حمید کے حوالے سے جو کچھ ہوا وہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔

اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی چیف وزیرِ اعظم کے ماتحت ہوتا ہے لیکن وہ فوج سے آتا ہے۔ آئی ایس آئی کا ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں عمل دخل ہوتا ہے اور آئی ایس آئی سربراہ ان سب معاملات کو دیکھتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ فیض حمید پر الزام سب سے پہلے پراپرٹی ٹائیکون کو اغوا کرنے کا لگا جس سے تمام کیس شروع ہوا۔

'یہ عمران خان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے'

تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان یہ بات مان چکے ہیں کہ انہیں جنرل باجوہ اور فیض حمید نے باقاعدہ اجلاسوں میں بتایا کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک نہ لائی گئی تو اگلے 10 سال عمران خان ہی ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ ضرور اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ اس سیاسی مداخلت میں کون کون شامل ہے؟ اگر اس ٹرائل کا مقصد صرف عمران خان پر دباؤ بڑھانا ہے تو ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہو چکی ہیں جو ناکام رہی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اس بار بھی ناکام رہیں گی۔"

جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رہنما شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید کو پی ٹی آئی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، لیکن درحقیقت اُن کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہوا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جنرل فیض نے ہی پی ٹی آئی کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے لڑوایا جب کہ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بنوا کر پی ٹی آئی اور عدلیہ کے درمیان بھی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔

شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کو اس سارے معاملے میں نہ دھکیلا جائے اور فوج اپنا احتساب کا عمل خود کرے۔

سید نذیر کے بقول افغانستان سے کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو واپس لانے کا الزام بھی جنرل فیض پر لگتا ہے۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس معاملے پر انہوں نے 'سولو فلائٹ' کی اور دفترِ خارجہ بھی اس پر آن بورڈ نہیں تھا۔

اُن کے بقول یہ وہ قدم تھا جس سے فوج کے اندر بھی ان پر تنقید کی گئی تھی۔ اس میں اتنی عجلت کا مظاہرہ کیا گیا کہ معاہدے کے بغیر ہی کئی لوگ یہاں واپس آ چکے تھے۔

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے لیے بہت سے مراحل ہیں، جن میں انکوائری کی جاتی ہے اور کسی افسر پر عائد الزامات کی مکمل جانچ پڑتال کر کے ان کے ثبوت جمع کیے جاتے ہیں۔

اس کے بعد فردِ جرم عائد کر کے باقاعدہ کارروائی ہوتی ہے جہاں ملزم کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہوتا ہے۔