عراق اور شام میں داعش کی خودساختہ خلافت کی سرحدیں رفتہ رفتہ کھسکتی جا رہی ہیں۔ تاہم، امکان اس بات کا ہے کہ امریکہ اور اتحاد کی پشت پناہی والی افواج کو کئی ماہ لگ جائیں گے تب جا کر کہیں وہ اِس دہشت گرد گروہ کی موصل اور رقہ کی محفوظ پناہ گاہوں کو یکسر ختم کر پائیں گے۔
امریکی قیادت والے ’آپریشن انہیرنٹ رِزالو (او آئی آر)‘ کے نئے اندازوں کے مطابق، دولت اسلامیہ کے لڑاکوں نے عراق میں اپنے زیر تسلط خطے میں سے 40 فی صد کھویا ہے؛ جب کہ شام میں اُن کے زیر قبضہ علاقے کا پانچ فی صد واگزار کرا لیا گیا ہے۔
’او آئی آر‘ کے ترجمان، کرنل اسٹیو وارن نے عراق میں داعش کی صورت حال کے بارے میں بغداد سے پینٹاگان کے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ہم نے فرات اور دجلہ دریا کی وادیوں میں محاذوں کا پتا لگایا ہے۔ تاہم، ابھی کوئی قابلِ ذکر حربی اقدام نہیں کیا گیا‘‘۔
شام کے بارے میں، وارن نے بتایا کہ داعش کے جنگجو ملک کے شمال مغرب میں خودساختہ مرہ کے خطے میں محدود پیمانے پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں، اُنھیں حلب میں حکومت کی افواج کے خلاف تھوڑی پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔
امریکی قیادت والے اتحاد نے داعش کے خلاف فضائی کارروائی کی چوٹ جاری رکھی ہوئی ہے، جس میں عراق میں زیادہ تر رمادی اور موصل کے قرب و جوار میں فضائی حملوں پر دھیان مرکوز رکھا ہے؛ جب کہ شام میں اس دہشت گرد گروہ کے رقہ کے خودساختہ دارلحکومت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
موصل نشانے پر
ایسے میں جب گذشتہ ماہ عراقی افواج نے داعش کے شدت پسندوں سے رماری کا تسلط خالی کرا لیا، یہ توقعات بڑھ چکی ہیں کہ اب موصل کی باری ہے، جہاں شہر کے شمال میں کُرد پیشمرگہ کے لڑاکوں نے گھیرا تنگ کر رکھا ہے، جب کہ عراقی افواج نے جنوب کی جانب سے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
باوجود اِس پیش رفت کے، کرنل وارن نے متنبہ کیا کہ موصل پر حملہ متوقع نہیں۔
بقول اُن کے، ’’ابھی کوئی فریق میز پر مکا مار کر یہ دعویٰ نہیں کر رہا ہے کہ بہت ہوگیا۔ ہم لوٹ رہے ہیں۔ ابھی کئی ماہ لگیں گے، جس کے بعد ہی کہیں جا کر موصل میں اصل کارروائی کا آغاز ہوگا‘‘۔
پینٹاگان کے ایک اندازے کے مطابق، داعش سے موصل واگزار کرانے کے لیے 2000 سے 3000 فوجوں پر مشتمل 10 بریگیڈ کی ضرورت پڑے گی۔ اِن میں سے دو بریگیڈ کُرد پیشمرگہ کی جانب سے آگے بڑھیں گی، جب کہ چند رمادی کو فتح کرنے والی فوج کے واپس ہونے پر میسر ہوگی۔
لیکن، دوسری فوجوں کو از سرِ نو تشکیل دیا جائے گا، جس کی تربیت کےلیے، اوسطاً آٹھ ہفتے کی فوجی تربیت درکار ہوگی، تب جاکر حملہ آور فوج کارروائی کے لیے تیار ہوگی۔
موصل کو واگزار کرانے میں طویل وقت لگ سکتا ہے، جب کہ امریکی فوجی عہدے داروں نے اس بات کی سفارش کی ہے کہ وہ بریگیڈ جو رمادی کا قبضہ چھڑانے میں کام آئے، اُنھیں مزید تربیت دی جائے گی، چونکہ بڑی اور پیچیدہ لڑائی متوقع ہے۔
دریں اثنا، امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ داعش کے شدت پسندوں کی قوت کو گہری ضرب لگانے کے لیے دہشت گرد ٹولے کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے، خصوصی طور پر رقہ کے گرد و نواح میں۔