پرانے کھلاڑیوں کی واپسی سے پاکستان کرکٹ ٹیم کو کیا فائدہ ہو گا؟

دنیا بھر کی بہترین ٹیمیں رواں سال جون میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے فٹنس کیمپ میں سابق کھلاڑیوں عماد وسیم، محمد عامر اور عثمان خان کی واپسی پر مبصرین تبصرے کر رہے ہیں۔

پاکستان کی فوج کے اشتراک سے کاکول اکیڈمی میں منگل سے فٹنس کیمپ میں یہ کھلاڑی ان تمام ٹاپ پرفارمرز کے ساتھ ٹریننگ کریں گے جنہوں نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں اچھی کارکردگی دکھائی یا جن پر گزشتہ کئی سال کے دوران بورڈ نے انویسٹ کیا ہے۔ ان کھلاڑیوں میں فاسٹ بالر شاہنواز دھانی کا نام سرفہرست ہیں۔

شاہنواز دھانی پی ایس ایل میں تو اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔ لیکن دو ون ڈے اور 11 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

پی ایس ایل 2021 کے دوران سب سے زیادہ 20 وکٹیں لینے والے 25 سالہ بالر شاہنواز دھانی نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر کیمپ میں مدعو نہ کیے جانے کے فیصلے پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔

سوشل میڈیا پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ اس فٹنس کیمپ میں موعو نہ کیا جانے پر انہیں اس لیے افسوس نہیں کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ کیمپ کے بعد بھی وہی سب سے زیادہ فٹ بالر بن کر سامنے آئیں گے۔

صرف شاہنواز دھانی ہی بورڈ کے حالیہ فیصلوں پر آواز اٹھانے والے واحد کھلاڑی نہیں ہیں۔

ریٹائرڈ کھلاڑیوں کی واپسی پر سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالرؤف نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح کے مشیر کرکٹ بورڈ کے پاس ہیں، ان سے اسی قسم کے فیصلے کی توقع تھی۔

اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے جنوبی افریقہ کے اے بی ڈی ولیئرز کی مثال دی جن کی درخواست کے باوجود انہیں ورلڈ کپ میں منتخب نہیں کیا گیا۔

بھارت کے وراٹ کوہلی کا بھی انہوں نے حوالہ دیا جن کی میگا ایونٹ میں بھارتی ٹیم میں جگہ مشکوک ہے۔

ایک اور ٹیسٹ کرکٹر تنویر احمد کا خیال ہے کہ ریٹائرڈ کرکٹرز کو واپس لانے جیسے فیصلوں کی وجہ سے کوئی دوسرا بورڈ پاکستان کرکٹ بورڈ کی عزت نہیں کرتا۔

ان کے بقول ان فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلیکشن کے لیے میرٹ کو نہیں دیکھا جاتا۔

سابق آسٹریلوی کپتان مائیکل کلارک نے بھی پی ایس ایل کے دوران کمنٹری کرتے ہوئے کہا کہ عماد وسیم کی انٹرنیشنل ٹیم سے دوری ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کرکٹ مسائل سے دوچار ہے۔

محمد عامر، عماد وسیم نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کیوں کہا تھا؟

انٹرنیشنل کرکٹ میں محمد عامر کی لگ بھگ چار اور عماد وسیم کی ایک سال بعد متوقع واپسی سے جو سب سے بڑا سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان دونوں کو مذاکرات کے بعد واپس آنا ہی تھا تو انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کیوں کہا تھا؟

یہ دونوں کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے کرکٹرز کی طرح فرنچائز کرکٹ بھی کھیلنا چاہتے تھے جس کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ رکھنے والے کھلاڑیوں کو اپنے بورڈ سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کی ضرورت پڑتی ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی پالیسی رہی ہے کہ انٹرنیشنل سیریز کے دوران کوئی بھی کھلاڑی فرنچائز کرکٹ نہیں کھیلے گا۔

بورڈ کی اسی پالیسی کی وجہ سے ان دونوں کو این او سی حاصل کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا اور فرنچائز کرکٹ کے لیے اپنی دستیابی ظاہر کی۔

تاہم ان دونوں کھلاڑیوں کی واپسی اس لیے ممکن ہوئی کیوں کہ جن کھلاڑیوں کو ان کی جگہ منتخب کیا گیا تھا وہ بھی اس معیار پر پورا نہیں اتر پا رہے تھے جس کی ان سے توقع تھی۔

ادھر پاکستان سپر لیگ کے دو سیزن میں تین سینچریاں بنانے والے عثمان خان کو بھی اس فٹنس کیمپ میں مدعو کیا گیا ہے جو پاکستان میں مواقع نہ ملنے پر دل برداشتہ ہو کر متحدہ عرب امارات منتقل ہو گئے تھے۔

اس وقت وہ اماراتی شہر عجمان میں ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں جس کی وجہ سے فرنچائز کرکٹ میں انہیں بطور اماراتی کھلاڑی منتخب کیا جاتا ہے۔

پی ایس ایل میں بھی وہ بطور غیر مقامی کرکٹر ہی شرکت کرتے ہیں۔

کرکٹ کے مبصرین کے مطابق اگر ماضی میں 28 سالہ وکٹ کیپر بلے باز کے ٹیلنٹ کو دیکھ کر انہیں وقت پر منتخب کیا جاتا تو انہیں ملک چھوڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ تاہم اب مڈل آرڈر میں ان کی جارحانہ بلے بازی سے پاکستان ٹیم فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

عثمان خان نے اب تک یو اے ای کی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی تو نہیں کی لیکن وہ اپنے ماضی میں انٹرویوز میں عندیہ دے چکے ہیں کہ انہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرنے کا کوئی شوق نہیں۔

البتہ اگر انہیں پاکستان کرکٹ ٹیم میں منتخب کر لیا گیا تو وہ متحدہ عرب امارات کی ٹیم کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ان انٹرنیشنل لیگ کا حصہ بننے سے محروم ہو جائیں گے جس میں کھیل کر انہوں نے اپنا نام بنایا۔

کیا پاکستان ٹیم کو محمد عامر اور عماد وسیم کی واقعی ضرورت ہے؟

پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین نے ان دونوں کھلاڑیوں کو ریٹائرمنٹ واپس لینے پر تو قائل کر لیا۔ لیکن بعض مبصرین کے مطابق سوال یہ ہے کہ کیا ان کے بغیر پاکستان ٹیم اچھا پرفارم نہیں کر سکتی؟

گزشتہ دو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے ایک فائنل اور ایک سیمی فائنل کھیلا تھا۔ ان دونوں میں محمد عامر شامل نہیں تھے۔

سال2021 میں ہونے والے ایونٹ میں عماد وسیم کی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی تھی جس کی وجہ سے انہیں بعد میں ڈراپ کیا گیا تھا۔

تاہم اب محمد عامر کی ممکنہ شمولیت سے کم از کم پاکستان کا پیس اٹیک مضبوط اس لیے ہونے کا امکان ہے کیوں کہ اس کی ساری ذمہ داری شاہین شاہ آفریدی کے ذمے ہے۔

حسن علی کا آؤٹ آف فارم ہونا، حارث رؤف اور نسیم شاہ کی انجری سے واپسی ان کے حق میں ہو سکتی ہے۔

محمد عامر حال ہی میں ختم ہونے والی پی ایس ایل نائن میں نو میچز میں وہ صرف 10 وکٹوں کے ساتھ 15ویں نمبر پر تھے۔ اسی لیے مبصرین کی رائے میں اگر عامر جمال، زمان خان یا کسی اور بالر کو ان کی جگہ موقع دیا جائے تو وہ زیادہ لمبے عرصے تک پاکستان کرکٹ کی نمائندگی کر سکیں گے۔

ان کھلاڑیوں میں ملتان سلطانز کے 19 وکٹیں حاصل کرنے والے پیسر محمد علی اور کراچی کنگز کے میر حمزہ شامل ہیں جن کی وکٹوں کی تعداد تو محمد عامر جتنی تھی لیکن اسٹرایئک ریٹ اور اکانومی ریٹ ان سے بہتر تھا۔

اگر عماد وسیم کی بات کی جائے تو ان کی کارکردگی بھی پاکستان سپر لیگ نائن کے ایلی منیٹر اور فائنل سے قبل اچھی نہیں تھی۔ لیکن ان کے متبادل آل راؤنڈرز شاداب خان اور محمد نواز کا انٹرنیشنل کرکٹ میں مسلسل آؤٹ آف فارم ہونا انہیں آل راؤنڈر کی پوزیشن کی جگہ کے لیے اہل بناتا ہے۔

نہ صرف وہ بطور بالر اننگز کا آغاز کر سکتے ہیں بلکہ نچلے اوورز میں بھی ان کی بیٹنگ سے ٹیم فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ تاہم اگر یہی مواقع کیمپ میں موجود اسامہ میر، مہران ممتاز اور ابرار احمد کو دیے جائیں تو مبصرین کی رائے میں وہ مستقبل کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

آخر میں بات کچھ ان دونوں کھلاڑیوں کی عمروں کی، گزشتہ سال دسمبر میں عماد وسیم نے اپنی 35ویں سالگرہ منائی تھی جب کہ محمد عامر اگلے ماہ 32 سال کے ہو جائیں گے۔

اس حساب سے وہ پاکستان کی زیادہ عرصہ نمائندگی نہیں کر سکیں گے۔

اسی لیے ان کی ممکنہ سلیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر میمز سامنے آ رہی ہیں جس میں چند افراد شاہد آفریدی اور وسیم اکرم کو بھی واپس لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کچھ کے خیال میں شعیب ملک اور عمر اکمل بھی محمد عامر اور عماد وسیم کی طرح سلیکشن کے اہل ہیں۔