داعش کو مادی حمایت کی فراہمی اور امریکہ میں قتل کی منصوبہ بندی کے الزام پر منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں تین صومالی نژاد امریکیوں کے خلاف مقدمے میں ملزمان کو 15 سال قید کی سزا دیے جانے کا امکان ہے۔
تاہم، مقدمے میں اس شدت پسند گروہ کی عالمی رسائی پر دھیان مرکوز ہے، جب کہ صومالی امریکی برادری کو عدالتی چارہ جوئی کے منصفانہ ہونے پر لاحق تشویش کے عنصر کے معاملے پر اور اس سے قانون کے نفاذ پر مامور اداروں کا رابطہ کار متاثر ہوسکتا ہے۔
تاہم، ساتھ ہی، اس مقدمے میں اِس قدامت پسند گروہ کی عالمی رسائی اور صومالی امریکی برادری کے اندر منصفانہ عدالتی چارہ جوئی کے بارے میں تشویش اور اس سے قانون کے نفاذ پر پڑنے والے اثرات پر بھی دھیان مرکوز ہے۔
محمد عبدی حامد فراح اور عبد الرحمٰن یاسین داؤد جن کی عمریں 20 کے پیٹے میں ہیں، اور غلد علی عمر صومالی امریکی مردوں کے اُس گروپ میں شامل ہیں جنھیں ’ایف بی آئی‘ نے مارچ 2014ء کے بعد کچھ ماہ کےعرصے کے دوران پکڑا تھا، جب اس گروپ کے ایک رُکن کی گھبراہٹ کے باعث یہ شبہ پیدا ہوا، خاص طور پر اُس وقت جب اُس نے ترکی کے سفر کے لیے پاسپورٹ کے حصول میں جلد بازی دکھائی۔ لیکن، وہ اپنے دورے کے بارے میں بنیادی سوالات کے جواب دینے سے قاصر تھے۔
باب فلیچر منی سوٹا میں ریمسی کاؤنٹی کے ایک سابق پولیس اہل کار اور صومالی تاریخ کے مطالعے کے مرکز کے سربراہ ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اُن کے پاس بہت سا ثبوت موجود ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ملک چھوڑنے اور داعش کے شدت پسند گروپ میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔
بقول اُن کے ’’وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وقت بوقت ملزمان داعش میں شامل ہونے اور اس دہشت گرد گروپ کے لیے قتل کی وارداتوں میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اس گروہ کا ایک حصہ نومبر 2014ء میں جانا چاہتا تھا، اور پھر جانے کی کوشش کرتے ہوئے اپریل 2015ء میں اِن میں سے دو ملزمان کیلی فورنیا سے گرفتار ہوئے۔ یہ شواہد کافی وزنی ہیں‘‘۔
لیکن، صرف یہی نہیں۔ فلیچر نے کہا کہ استغاثہ عدالت کے سامنے داعش کے مظالم پیش کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے وہ گروپ کا پروپیگنڈہ اور سر قلم کیے جانے، اردن کے پائلٹ کو پنجرے کے اندر نذر آتش کیے جانے اور دیگر بربریت پر مبنی وڈیوز کے شواہد پیش کرنا چاہتا ہے۔
فلیچر نے کہا کہ استغاثہ اِس ظلم و استبداد کی تصاویری جھلک سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ملزمان کو قدامت پسندی پر قائل کیا گیا تھا اور وہ سفر کرنے پر تیار تھے۔
بقول اُن کے، ’’وہ اِن وڈیوز کو دکھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ باوجود اس بات کے کہ اُنھیں داعش کی بربریت کا پورا علم ہے، وہ نومبر 2014ء اور اپریل 2015ء کے دوران جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی ظالم تنظیم میں شمولیت کا ارادہ رکھتے تھے، جسے ثابت کرنا مشکل مرحلہ ہوگا‘‘۔
حکومت ایک مخبر کی جانب سے فراہم کردہ ریکارڈنگز پر انحصار کرے گی، جو خفیہ طور پر ’ایف بی آئی‘ سے ملا ہوا تھا۔
ایسے میں جب ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ اِن افراد کی جانب سےبیرون ملک داعش میں شمولیت کے وسیع ثبوت موجود ہیں، فلیچر کی پیش گوئی ہے کہ حکومت کے لیے یہ سنگین الزام کہ وہ قتل کی واردات کا ارادہ رکھتے تھے، ثابت کرنا مشکل ہوگا، جس الزام کی سزا عمر قید ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وکلائے صفائی جیوری کو کہیں گے کہ وہ خاص ثبوت کا تقاضا کرے اور یہ کہ محض داعش کی بربریت کی بنیاد پر جذبات کے تانے بانے کا سہارا قبول نہ کیا جائے۔
بقول اُن کے، ’’اپنا بہترین دفاع جو اُن کے پاس ہوسکتا ہے وہ یہ کہ یہ محض باتیں تھیں، اور یہ بچے وہاں جا کر قتل کا ارادہ نہیں رکھتے تھے‘‘۔