پاکستان کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ ملکی معیشت اس وقت توقع سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں معیشت (اوور ہیٹ) ہی نہ ہو جائے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ محصولات میں صرف تین ماہ کے دوران 45 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے جو ہدف سے 24 فی صد زیادہ ہے۔
وزیرِ خزانہ نے دعویٰ کیا کہ درآمدات کا بڑھنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے جب کہ کپاس کی پیداوار میں بھی اضافے کی توقع ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرعی شعبہ بھی ترقی کر رہا ہے۔
شوکت ترین نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ مفروضوں کے بجائے حقائق پر مبنی بات کر رہے ہیں۔
معیشت کی 'اوور ہیٹنگ' سے کیا مراد ہے؟
ماہر معیشت اور ریسرچر خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ اوور ہیٹڈ اکانومی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اجناس کی کھپت کافی بڑھ گئی ہے۔ سیمنٹ فرٹیلائزر اور گاڑیوں کی فروخت میں حالیہ عرصے میں اضافے دیکھنے میں آیا ہے۔
اُن کے بقول جب اس طرح کا سائیکل تیز ہو جاتا ہے تو لگتا یہ ہے کہ لوگوں کے پاس ان چیزوں کو خریدنے کی سکت موجود ہے جب کہ دوسری جانب اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ روپیہ سستا ہو گیا ہے اور اس سے مہنگائی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
خرم شہزاد کے بقول اوور ہیٹڈ اکانومی سے مراد یہ ہے کہ طلب میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن دوسری جانب مقامی سطح پر اس قدر گنجائش موجود نہیں کہ اس طلب کو پورا کیا جائے تو پھر ایسے میں شرح نمو کو کم کیا جاتا ہے تاکہ طلب کی بڑھتی ہوئی توقعات مہنگائی میں تبدیل نہ ہوں۔
خرم شہزاد کا مزید کہنا تھا کہ ایسے میں شرح سود بڑھا کر معاشی رفتار کو کم کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ فسکل پالیسی یعنی مالی حکمتِ عملی پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے کیوں کہ حکومتی اخراجات بھی کچھ عرصے میں بڑھے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافے اور گاڑیاں خریدنے کے لیے قرضوں کے حصول میں کچھ سختی کی ہے اس سے تجارتی خسارہ کم کرنے میں کچھ مدد ملے گی۔ لیکن زیادہ فرق کی امید نہیں کیونکہ گاڑیاں ہماری درآمدات کا پانچ سے 10 فی صد بھی نہیں ہیں۔
وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ معیشت پانچ فی صد سے بھی زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ لیکن اُن کے بقول حکومت کا خیال ہے کہ ایک ہی سال میں چار فی صد سے 6 فی صد کی ترقی کی رفتار دکھانے کے لیے چھلانگ لگانا ضروری نہیں۔ کیوں کہ وہ پائیدار نہیں ہو گی جب کہ حکومت پائیدار ترقی چاہتی ہے۔
'معیشت اوور ہیٹڈ ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں'
ماہر معاشیات اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں اس وقت اس بات کے کوئی خاص ثبوت موجود نہیں کہ معیشت 'اوور ہیٹڈ' ہے۔ ان کے خیال میں یہ مفروضہ درست نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ صنعتی پیداوار کی شرح نمو صرف 2.2 فی صد ہے، ملک میں کرونا سے قبل کے برسوں کی نسبت اس سال اب تک پیٹرولیم مصنوعات کی طلب بھی کم ہوئی ہے جب کہ فرٹیلائزر کی درآمد میں 40 فی صد کمی ہوئی ہے اور تعمیرات کے شعبے میں بھی سیمنٹ کی پیداوار میں جولائی میں کمی دیکھی گئی ہے۔
اُن کے بقول لوہے اور فولاد سے بنی ہوئی اشیا کی درآمدات بھی کم ہوئی ہیں۔ تو ایسے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت میں ضرورت سے زیادہ سرگرم یا اوور ہیٹڈ نظر آ رہی ہے؟
'معیشت کے بنیادی عوامل ٹھیک کیے بغیر تیزی خطرناک'
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ کسی بھی معیشت کے بنیادی عوامل کو ٹھیک کیے بغیر تیز رفتاری نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستانی معیشت چونکہ مقامی طور پر تیار کردہ اشیا پر کم جب کہ باہر سے منگوائی گئی اشیا پر زیادہ انحصار کرتی ہے اس لیے اشیا سازی کی استعداد کار نہ ہونے اور کھپت پر دارومدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ایسی معیشت میں درآمدات بڑھ جاتی ہیں اور برآمدات اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی ہوتیں۔ نتیجتاً اس سے تجارتی خسارہ بڑھتا ہے، اس کا دباؤ ملکی کرنسی پر پڑتا ہے، کرنسی کی قیمت گرتی ہے اور ملک میں مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اس سے قبل 20 ستمبر کو دو ماہ کے لیے شرح سود کو بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی کچھ ایسا ہی کہا تھا کہ ملک میں کرونا وبا کے بعد معاشی بحالی کی رفتار "توقع سے زیادہ" بڑھ گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال میں شرح نمو چار سے پانچ فی صد کی حد میں رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔
'درآمدات میں تیزی کرنٹ اکاونٹ خسارے کی وجہ بن رہی ہے'
اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں کے ساتھ ملکی طلب کی بھرپور بحالی سے درآمدات میں تیزی اور جاری کھاتے کے خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ جون 2021 سے ملک میں مہنگائی میں کسی حد تک کمی دیکھی جا رہی ہے لیکن درآمدات زیادہ ہونے اور پھر طلب بھی بڑھنے کی وجہ سے آنے والے چند ماہ میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں گاڑیوں، پیٹرولیم مصنوعات (پیٹرولیم، تیل اور لبریکینٹس) کی فروخت، سیمنٹ کی فروخت اور بجلی کی طلب بڑھنا مضبوط معاشی نمو کے عکاس ہیں۔
بینک کے مطابق نمو کی عکاسی درآمدات اور ٹیکس وصولیوں کی مضبوطی سے بھی ہوتی ہے۔ بڑے پیمانے پر اشیا سازی یعنی لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم)میں اگست میں 2.2 فی صد کے معتدل ہونے سے قبل جون میں 18.5 فی صد کی مضبوط نمو ظاہر ہوئی جب کہ خدمات کے شعبے میں بھی ترقی دیکھی گئی ہے۔
اسی طرح گوگل کمیونٹی موبلٹی رپورٹس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جولائی اور اگست میں اشیائے خوردو نوش کی دکانوں، ریستورانوں، اور شاپنگ سینٹرز میں سرگرمیاں کووڈ سے پہلے کی سطح سے تجاوز کر گئی ہیں۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کو یہ بھی توقع ہے کہ زراعت میں کپاس کے زیرِ کاشت رقبے میں کمی کی تلافی چاول، مکئی اور گنے کے زیرِ کاشت رقبے میں اضافے سے ہو جائے گی۔
ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 44 ڈالر سے 75 ڈالرز تک بڑھنے، ایل این جی کی قیمتیں بڑھنے ، گاڑیاں بہت بڑی تعداد میں درآمد ہونے سے مجموعی طور پر بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ بڑھ رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اسی تناظر میں درآمد شدہ گاڑیوں کی فنانسنگ بند جب کہ 1000 سی سی سے اوپر کی گاڑی کی خریداری کے لیے قرضے کی حد 30 لاکھ روپے اور اس کی واپسی کی مدت سات سال سے کم کر کے پانچ سال کر دی ہے۔ جب کہ ڈاون پیمنٹ بھی 15 سے بڑھا کر 30 فی صد کر دی گئی ہے۔ ان تمام اقدامات سے حکومت کے خیال میں معاشی سرگرمی میں کسی حد تک سست روی لا کر تجارتی خسارے کو کم کیا جائے گا۔