پاکستان میں گزشتہ مالی سال کے دوران ترسیلاتِ زر ریکارڈ 29 ارب ڈالرز کی سطح کو عبور کر گئیں جو ملک کی تاریخ میں ایک سال کے دوران بیرون ملک مقیم افراد کی جانب سے بھیجے جانے والی سب سے بڑی مجموعی رقم ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر کی مد میں دو ارب ڈالر سے زائد آنے کا ریکارڈ مسلسل 13ویں مہینے میں بھی جاری رہا اور جون 2021 میں تقریباً دو ارب 70 کروڑ ڈالرز آئے جو گزشتہ سال کی نسبت نو فی صد زیادہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ عید سے قبل زیادہ رقوم کی آمد سے جون کے دوران ترسیلاتِ زر بڑھنے میں مزید مدد ملی۔
جب کہ مجموعی طور پر ملک میں مالی سال 21-2020 کے دوران بھیجی جانے والی رقم 29 ارب 40 کروڑ ڈالرز ریکارڈ کی گئی۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال میں کرونا وبا کی وجہ سے مشکل عالمی معاشی حالات کے باوجود ملک کی بیرونی شعبے کی پوزیشن بہتر کرنے میں مدد ملی۔ مالی سال 21- 2020 میں گزشتہ برس کی نسبت ترسیلاتِ زر میں 27 فی صد کی نمایاں نمو ہوئی جو سال 2003 سے اب تک اضافے کی تیز ترین شرح ہے۔
ترسیلاتِ زر میں اس قدر اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر مالی سال 21-2021 کے دوران کارکنوں کی ترسیلاتِ زر کی ریکارڈ رقوم کی آمد کے اسباب میں باضابطہ طریقوں کے استعمال کی ترغیب دینے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک کے پالیسی اقدامات، کرونا وائرس کی وجہ سے سرحد پار سفر میں کمی، وبا کے دوران پاکستان بھیجی جانے والی فلاحی رقوم اور زرِ مبادلہ مارکیٹ کے منظم حالات تھے۔
معاشی سرگرمیوں پر تحقیق سے منسلک بی ایم اے کیپٹل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سعد ہاشمی کا کہنا ہے کہ ترسیلاتِ زر میں نمایاں اضافہ پاکستان کے لیے نیک شگون ہے اور اس سے یقینی طور پر ملک کی معیشت کے حالات بہتر ہوں گے۔
سعد ہاشمی کا کہنا تھا کہ ملک کی درآمدات 50 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں جب کہ برآمدات اس کے نصف یعنی 25 ارب ڈالرز کے ہیں۔ ایسے میں ترسیلاتِ زر جس قدر زیادہ ہوں اس سے بیرونی خسارہ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اسی وجہ سے اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم رہنے کی توقع ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تجارتی خسارے کو کم کرنے میں ترسیلاتِ زر کا کردار انتہائی اہم ہے۔
سعد ہاشمی نے مزید بتایا کہ ایکسٹرنل اکاؤنٹ کو مستحکم کرنے کے لیے معیشت کا عام سا اصول یہ ہے کہ برآمدات ہمارے مجموعی قومی آمدن (جی ڈی پی) کے 15 فی صد کے برابر ہونی چاہیے۔ جب کہ پاکستان کی معیشت، جس کا کل حجم 300 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے، اس لحاظ سے ہماری برآمدات صرف آٹھ فی صد بنتی ہیں۔ اس لیے اس وقت برآمدات بڑھانے پر توجہ دینی ہے اور اسے جی ڈی پی کے کم از کم 15 فی صد پر لانا ہو گا۔ اور ایسا کرنے سے انحصار ترسیلاتِ زر اور قرضوں پر کم کیا جا سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی توجہ یہی نظر آتی ہے جس کے لیے مقامی طور پر پیداواری عمل کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ تو درآمدات پر قابو پانے کے لیے نہ صرف ان اشیا کی مقامی سطح پر تیاری ضروری ہے بلکہ انہیں بہتر معیار میں بنا کر دیگر ممالک کو فروخت بھی کیا جانا چاہیے۔
سعد ہاشمی کا کہنا ہے کہ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں پر توجہ دی گئی ہے اور انہیں رقوم کی منتقلی کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسا آسان نظام متعارف کرایا گیا ہے۔
ان کے خیال میں اگر یہ عمل جاری رہا تو امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں بھی ترسیلاتِ زر کی موجودہ شرح برقرار رہے گی۔
سعد ہاشمی کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے نقل و حرکت اور سفر میں کمی دیکھی گئی ہے تو اس وجہ سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے بینکنگ چینلز کے ذریعے پیسے بھیجے ہیں۔
’صرف ترسیلاتِ زر سے معیشت مضبوط نہیں ہوتی‘
لیکن دوسری جانب ایک اور ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری تب ہی آئے گی جب صنعتوں کا پہیہ چلے گا۔ جب ملک زرعی طور پر خود کفیل ہوگا۔ جب ملک کا سروسز اسٹرکچر ترقی کرے گا۔ جب محاصل زیادہ ہوں گے۔ بجٹ خسارہ کم ہوگا۔ با آسانی قرضوں کی ادائیگیاں کی جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ترسیلاتِ زر بڑھنے کی ایک بڑی وجہ کرونا کے باعث خاندانوں کی پاکستان واپسی ہے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنے خاندانوں کے لیے کچھ زیادہ رقم بھیج رہے ہیں۔
ان کے خیال میں جب تک کرونا وائرس سے عالمی معیشت نکل نہیں آتی یا جب تک حالات معمول پر واپس نہ آجائیں اس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ترسیلاتِ زر میں موجودہ اضافہ برقرار رہے گا یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اس وقت بہت ہی غیر معمولی حالات سے گزر رہی ہے۔ پروازیں معطل ہیں۔ جو لوگ پہلے باہر سے آتے تھے وہ اپنے ساتھ رقم لے آتے تھے۔ لیکن اس وقت وہ بینکنگ چینلز کے ذریعے بھیج رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ سلسلہ برقرار رہتا ہے یا نہیں۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر سعودی عرب سے موصول ہوئیں جو سات ارب 70 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات سے بھیجی گئی رقم چھ ارب 10 کروڑ ڈالر، برطانیہ سے چار ارب 10 کروڑ ڈالر اور امریکہ سے بھی دو ارب 70 کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے گئے۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے زیادہ بھارت 84 ارب ڈالرز، چین 70 ارب ڈالرز، میکسیکو 38 ارب ڈالرز، اور فلپائن 35 ارب ڈالرز کی ترسیلاتِ زر گزشتہ سال وصول کرتے رہے ہیں۔