|
نو مئی 2023 کو عسکری تنصیبات پر حملوں کے الزام میں فوج کے زیرِ حراست 20 افراد کو عید سے قبل رہا کر دیا گیا ہے۔ بعض حلقے اسے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے لیے ریلیف قرار دے رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے رہنما اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق فوجی عدالتوں نے ایسے 20 ملزمان کو بری کر دیا ہے جنہیں نو اور 10 مئی کے واقعات میں فوجی عدالتوں نے ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
رپورٹ کے مطابق 17 ملزمان نے ساڑھے 10 ماہ اور تین نے ساڑھے نو ماہ قید کاٹی ہے جب کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے آرمی ایکٹ کے تحت ملزمان کی بقیہ سزائیں معاف کر دی ہیں۔
دستاویزات میں شامل فہرست میں ان 20 افراد کے نام درج ہیں جنھیں چھ اور سات اپریل کو بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا سے رہا کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نو اور 10 مئی کے حملوں پر فوجی عدالتوں نے راولپنڈی کے آٹھ، لاہور کے تین، گوجرانوالہ کے پانچ، دیر کے تین اور مردان کے ایک ملزم کو ایک، ایک سال قید بامشقت کی سزا دی تھی۔
واضح رہے کہ 28 مارچ کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ نو مئی کے 103 ملزمان میں سے 20 کو رہا کر دیا جائے گا۔
'پی ٹی آئی فوجی عدالتوں کو نہیں مانتی'
پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی فوجی عدالتوں کو مانتی ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے دی گئی سزاؤں کو تسلیم کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا پہلے دن سے ہی یہ مؤقف ہے کہ فوجی عدالتیں غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں۔
مبصرین آرمی چیف کے اس اقدام کو خیر سگالی کا جذبہ قرار دیتے ہیں، تاکہ یہ افراد اپنے گھر والوں کے ساتھ عید منا سکیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ جن افراد کو رہا کیا گیا ہے، ان پر سنگین الزامات نہیں تھے۔ ان افراد کو ایک سال یا اس سے بھی کم سزائیں سنائی گئی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نو مئی کے حوالے سے ملزمان کے خلاف مختلف الزامات ہیں۔ تمام الزامات اور مقدمات کی نوعیت الگ الگ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں عدالتِ عظمیٰ نے نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے فیصلہ جاری کیا تھا کہ فوجی عدالتیں ٹرائل شروع کر سکتی ہیں۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صدر، وزیرِ اعظم اور گورنر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ 90 سے 120 روز کی سزائیں معاف کر سکتے ہیں۔ لہذٰا اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے آرمی چیف نے بھی جذبہ خیر سگالی کے تحت یہ فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ افراد اپنوں کے ساتھ عید منا سکیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کی جانب سے سزاؤں میں معافی پانے والے تمام افراد نے اگلے ایک سے تین ماہ میں سزائیں پوری پونے پر رہا ہو جانا تھا۔
ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کی جانب سے سزاؤں میں کمی کو جذبہ خیر سگالی نہیں کہا جا سکتا۔
اُن کے بقول یہ افراد ایک سال سے زائد عرصے سے جیلوں میں تھے۔ اسی طرح عمران خان بھی جیل میں قید ہیں۔ یہ کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ہے۔
آرمی چیف کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عمران خان کی رہائی سے متعلق قیاس آرائیاں بھی زوروں پر ہیں۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان کے کئی کیسز عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں جن میں توشہ خانہ اور سائفر کیس بھی شامل ہیں۔
اُن کے بقول ابھی تک نو مئی میں عمران خان کے خلاف باضابطہ طور پر کوئی کیس نہیں بنایا گیا ہے۔ اِسی طرح نو مئی کے حوالے سے کسی بھی کیس میں عمران خان کی باضابطہ گرفتاری بھی نہیں ہوئی۔
مظہر عباس کے بقول اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کے لوگ غالباً یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی آئندہ دو سے چار ماہ میں رہائی ہو سکتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پی ٹی آئی کے کارکنوں کا مورال کافی بلند ہو جائے گا۔
رؤف حسن سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو ابھی تک کسی بھی عدالت سے کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملا ہے اور نہ ہی مل رہا ہے۔
اُن کے بقول عمران خان اور پی ٹی آئی تو صرف انصاف کی بات کرتی ہے۔ تمام مقدمات میں ناانصافی ہوئی ہے۔
کیا اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کچھ فاصلے کم ہوئے ہیں؟
مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ وہ اِس بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان اور فوج کے درمیان برف پگھلی ہے یا نہیں کیوں کہ دونوں کے درمیان براہِ راست کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ صورتِ حال کو ایسے ہی برقرار رکھا جائے جب کہ دوسری رائے یہ ہے کہ جو ریلیف بنتا ہے وہ دیا جائے۔
مظہر عباس کے بقول کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔ لیکن بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ راستے کھلے ہیں اور رابطے بھی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ہمارے کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں جو پارٹی کو توڑنا چاہتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی مختلف کمیٹیوں کی تشکیل سیاسی معاملات کے لیے کی گئی ہے۔ لیکن حتمی فیصلے کور کمیٹی ہی کرے گی۔
رؤف حسن کے بقول اب تک تو یہ ہو رہا ہے کہ عمران خان کو ایک مقدمے میں ضمانت ملتی ہے تو کسی دوسرے میں گرفتاری ڈال دی جاتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ فی الحال چار مرکزی مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں جنہیں پی ٹی آئی کے وکلا اچھے طریقے سے لڑ رہے ہیں جب کہ سرکاری وکلا مقدمات کو طول دے رہے ہیں۔
رؤف حسن کے بقول عمران خان کے جیل سے باہر آنے کی قیاس آرائیوں پر وہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں کیوں کہ بطور ترجمان پی ٹی آئی ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔