داعش کے مسلح جنگجوؤں نے حکومت کی جانب سے صحرا ئی خطے کی واپسی کے لئے جاری مہم کے جواب میں جمعرات کو عراق کے وسیع صوبہ امبار کے دارلحکومت پر چاروں اطراف سے حملہ کیا، اور شہر کے دو اہم علاقوں کو بند کرنا شروع کردیا ہے۔
سیکورٹی حکام اور اسپتال ذرائع کے مطابق، جہادیوں نے راتوں رات پیادہ حملے سے پہلے سرکاری رابطے کو منقطع کرنے کے لئے رمادی شہر کے شمال میں اپنی گاڑیاں اور خودکش بمبار تعینات کردئے تھے۔
صوبہ انبار کے سربراہ صباح کرہوت نے وزیر اعظم حیدر العابدی سے فوری فوجی امداد طلب کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ جہادیوں سے مقابلے میں ان کی کمک ختم ہونے کو ہے۔
وزیر اعظم حیدر العابدی نے منگل ہی کو عمبر کا دورہ کیا تھا؛ اور سنی علاقے، تکریت کو آزاد کرانے کے لئے سخت کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
لیکن، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جمع کی صبح ہی حملہ آوروں نے ابو فراج شہر کے نصف سے زائد حصے پر قبضہ جما لیا تھا؛ اور صوبائی کونسل کے رکن اتھل الفہداوی کے مطابق پورا شہر ہی ان کے قبضے میں جاچکا ہے۔
رمادی کے شمال میں واقع ابو فراج سے سینکڑوں خاندان جان بچانے کے لئے فرار ہو رہے ہیں۔ لیکن، دریائے فرات پر رمادی سے ملانے والا واحد پل کار بم دھماکے سے تباہ کیا جاچکا ہے۔
فوجی حکام اور پولیس ذرائع نے اس علاقے میں رہنے والے قبیلے، ابوفراج پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے جنگجوؤں کو اس علاقے میں آنے دیا۔الفہداوی اور مقامی قبائیلی رہنما شیخ غسان الااہتھاوی کے مطابق، حملہ آور شہر سے متصل ابو اتھا کے علاقے پر بھی قابض ہوچکے ہیں۔
اس حملے کے ساتھ ہی انبار صوبے کا بڑا علاقہ عراقی حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، جن میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جن پر گزشتہ جون میں موصل پر قبضے کے دوران داعش تسلط نہیں جما سکی تھی۔