افغانستان کے مشرقی صوبے قندھار میں داعش خراسان کے پے درپے حملوں کے بعد روس کے دارالحکومت ماسکو میں جمعے کو کیے گئے حملے کو ماہرین خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش خراسان کا کنٹرول افغان صوبے ننگرہار اور کنڑ تک ہی محدود تھا۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے میں شدت پسند تنظیم نے اپنا دائرہ اور اثر و رسوخ کئی علاقوں تک پھیلا دیا ہے۔
روس کے دارالحکومت ماسکو کے کنسرٹ ہال میں جمعے کو ہونے والے ایک حملے میں 137 افراد ہلاک اور 180 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے جب کہ اس حملے کی ذمے داری داعش خراسان نے قبول کی تھی۔
داعش خراسان نے سوشل میڈیا پر حملے کی ایک دھندلی سی ویڈیو بھی پوسٹ کی تھی جس میں مبینہ طور پر بندوق برداروں کو کروکس کنسرٹ ہال میں گھستے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
روسی فورسز نے حملے میں ملوث چار افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جن کا تعلق تاجکستان سے بتایا جاتا ہے۔ چاروں ملزمان کو اتوار کی شب شدید زخمی حالت میں ماسکو کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے ان کے مبینہ اقدام کو دہشت گردی قرار دیا۔
واضح رہے کہ خراسان اس خطے کا ایک تاریخی نام ہے جس میں موجودہ پاکستان، ایران، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا کے کچھ علاقے شامل ہیں۔
داعش خراسان کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی جس کے پہلے سرکردہ رہنما حافظ سعید خان تھے جن کا شمار کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
حافظ سعید خان ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ تاہم پاکستانی اور افغان طالبان کے سابق جنگجوؤں کی داعش خراسان میں شمولیت کے بعد ان کی تنظیم میں مضبوط ہوتی رہی۔
'کچھ معلوم نہیں داعش کی قیادت کہاں ہے'
شدت پسندی کے موضوع پر کام کرنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار داؤد خٹک کہتے ہیں افغانستان میں اس وقت داعش خراسان کے پاس عملی طور پر کوئی بھی محفوظ ٹھکانہ نہیں ہے۔ البتہ کسی بھی شدت پسند تنظیم کی بقا امن و امان والے علاقوں میں نہیں بلکہ حالت جنگ میں ہوتی ہے کیوں کہ اس طرح کی تنظیمیں لڑائی کی صورت میں ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں۔
ان کے بقول داعش کے سرکردہ رہنماؤں کی ایک ایک کر کے امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کے بعد اس کے جنگجوؤں بھی غیر فعال ہو گئے تھے۔ اب کچھ معلوم نہیں کہ اس تنظیم کی قیادت کہاں رہتی ہے، جنجگوؤں کے ٹریننگ کیمپس کہاں واقع ہیں اور شدت پسندی کی کارروائیوں کی حکمتِ عملی کہاں سے مرتب ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے داؤد خٹک نے کہا کہ اگست 2021 میں افغان طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد جنگجو تنظیموں پر واضح کر دیا تھا کہ وہ افغانستان میں امن کے ساتھ تو رہ سکتی ہیں لیکن افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے چین یا دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے خلاف کارروائیاں نہیں کر سکتیں۔
ان کے بقول طالبان قیادت کے اعلان کے بعد مختلف تنظیموں سے منسلک جنجگوؤں نے داعش خراسان میں شمولیت اختیار کی تھی۔
SEE ALSO: ماسکو کنسرٹ حملہ:4 مبینہ حملہ آور گرفتار، ملزمان یوکرین فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، پوٹنپشاور یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ سے وابسطہ پروفیسر سید عرفان اشرف کے مطابق داعش خراسان پاکستان، ایران اور افغانستان میں کئی حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے لیکن ماسکو میں 100 سے زائد افراد کو نشانہ بنانا، نہ صرف اس خطے بلکہ یورپ اور امریکہ کے لیے بھی تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عرفان اشرف نے کہا کہ اگرچہ افغان طالبان نے ماسکو میں ہونے والے حملے کی مذمت کی ہے۔ تاہم انہیں خدشہ ہے کہ اس حملے کے اثرات روس اور طالبان حکومت کے تعلقات پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ داعش خراسان نے ماسکو حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ اگر آزادانہ تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوا کہ اس حملے کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوئی ہے تو خطے کے ممالک افغانستان کے اندر اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے افغان طالبان پر دباؤ بڑھانے سے گریز نہیں کریں گے۔
'عالمی طاقتوں کو افغانستان میں کارروائی کا موقع مل سکتا ہے'
عرفان اشرف نے کہا کہ پاکستان نے بھی حال ہی میں افغانستان کے اندر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اگر ایسی صورتِ حال بنتی ہے تو افغانستان کے اندر ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ بھی کہتے ہیں کہ داعش خراسان کی حالیہ کارروائیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ یورپ سمیت کہیں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں باآسانی کر سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ داعش خراسان نے قندھار اور ماسکو میں حالیہ حملوں سے قبل پاکستان میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ان کے بقول، داعش خراسان کی جانب سے ماسکو جیسی طرز کی کارروائیاں جاری رہیں تو خدشہ ہے کہ عالمی طاقتوں کو اس خطے میں دوبارہ سے داخلی و خارجی اور قومی سلامتی کے تحفظ کی آڑ میں مداخلت کا موقع مل سکتا ہے جیسا کہ امریکہ کو عراق اور افغانستان میں القاعدہ کے خلاف فضائی اور زمینی کارروائی کا جواز ملا تھا۔
ان کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو افغانستان سمیت پاکستان کے سابق قبائلی علاقہ جات دوبارہ جنگ کا تھیٹر بن سکتے ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان کے ساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتے: وزیرِ دفاع خواجہ آصفماہرین کے مطابق ایسے وقت میں جب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاکستان کے اندر پے درپے دہشت گرد حملوں کے باعث پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کافی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے تو اس صورتِ حال کا فائدہ داعش خراسان ضرور اٹھانے کی کوشش کرے گی۔
یاد رہے کہ 18 مارچ کو افغانسان کی سرحد سے متصل علاقے میر علی میں پاکستانی فوج پر خودکش حملے میں سات فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ جس کے جواب میں پاکستان نے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے مختلف ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
افغانستان نے پاکستان کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے اپنی سالمیت کے خلاف کارروائی قرار دیا تھا۔
تجزیہ کار داؤد خٹک کے مطابق افغانستان کے اندر داعش خراسان کا دوبارہ سے اٹھنا وقتی طور پر پاکستان کے لیے سود مند ہو سکتا ہے۔ تاہم پاکستان کے لیے داعش خراسان کو افغان طالبان کے خلاف ساتھ دینا کسی بھی صورت سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔
افغان امور کے ماہر کے مطابق اس حوالے سے نوے کی دہائی میں افغان سرزمین پر مختلف حکومتوں کے خلاف پہلے مجاہدین اور بعد میں طالبان کا ساتھ دینے کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔