نجی کمپنی، ‘ایئر بلیو’ کا مسافر جہاز کراچی سے اسلام آباد آ رہا تھا اور اِس پر عملے کے چھ ارکان سمیت کل 152افراد سوار تھے۔
حکام اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جِس وقت طیارہ دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر اترنے کی تیاری کر رہا تھا شہر میں شدید بارش اور مرگلہ کی پہاڑیوں پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ لیکن، اسلام آباد ایئر پورٹ کے کنٹرول ٹاور سے طیارے کے عملے کے آخری رابطے کے صرف تین منٹ بعد صبح نو بج کر 45منٹ پر جہاز مرگلہ کی ایک پہاڑی سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔
اسلام آباد انتظامیہ اور فوج کی امدادی ٹیموں کو فوری طور پر جائے حادثہ کی طرف روانہ کردیا گیا لیکن اُنھیں وہاں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ جِس جگہ یہ حادثہ پیش آیا وہاں تک نہ تو گاڑیوں کی آمدو رفت کے لیے کوئی سڑک ہے اور نہ ہی پیدل جانے والوں کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ بنا ہوا ہے۔
امدادی کارکنوں نے لاشوں کو اکٹھا کرکے کندھوں پر اُٹھا کر ہیلی کاپٹر تک پہنچایا جہاں سے اُنھیں اسلام آباد کے اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا۔
اِس حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے علاوہ لواحقین کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں سے اسلام آباد پہنچ چکے تھے اور جِن لاشوں کی شناخت ممکن تھی اُنھیں رشتے داروں کے حوالے کر دیا گیا، اور اِس موقعے پر اسپتال کے باہر رِقّت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔
اکثر لاشیں اِس حد تک مسخ ہو چکی ہیں کہ لواحقین کےلیے اُنھیں پہچاننا مشکل ہے۔ اِس لیے، وزیرِ اطلاعات قمر الزماں کائرہ نے کہا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے باقی لاشوں کو شناخت کرنے کے بعد ہی رشتے داروں کے حوالے کیا جائے گا۔
امریکی سفارت خانے نے تصدیق کی ہے کہ مرنے والوں میں دو امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
وزیرِ اطلاعات نے بتایا کہ حکام طیارے کے بلیک باکس کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں جِس کے تجزئے کے بعد ہی حادثے کی وجوہات معلوم ہو سکیں گی۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اِس افسوس ناک واقعے پر دکھ کا اظہار کیا ہے اور حکومت نے جمعرات کو ملک بھر میں سوگ اور قومی پرچم سر نِگوں کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بدھ کو ہونے والے حادثے کی وجوہات کے بارے میں حکام تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے قیاس آرائی کرنے سے گریزاں ہیں۔
موسم کی خرابی کے باعث کنٹرول ٹاور سے جہاز کے پائلٹ کو لینڈنگ کے لیے راستہ تبدیل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن ماہرین اِس امر پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک نئی سمت سے لینڈنگ کے لیے پہاڑی علاقے میں طیارہ اِس قدر نیچی پرواز کیوں کر رہا تھا۔
ایئر بلیو کے ترجمان راحیل احمد کا کہنا ہے کہ طیارہ دس سال پرانا تھا اور اِس دوران کسی مرحلے پر اُس میں تکنیکی خرابی بھی سامنے نہیں آئی تھی۔
ایئر بلیو کے طیارے کو پیش آنے والا حادثہ پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے ہلاکت خیز واقعہ ہے جب کہ سنہ 2004ء میں اندرون ِ ملک اور بیرونِ ملک محدود پروازیں شروع کرنے کے بعد اِس کمپنی کے کسی طیارے کو پیش آنے والا یہ پہلا حادثہ ہے۔
اسلام آباد انتظامیہ اور فوج کی امدادی ٹیموں کو فوری طور پر جائے حادثہ کی طرف روانہ کردیا گیا لیکن اُنھیں وہاں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ جِس جگہ یہ حادثہ پیش آیا وہاں تک نہ تو گاڑیوں کی آمدو رفت کے لیے کوئی سڑک ہے اور نہ ہی پیدل جانے والوں کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ بنا ہوا ہے