ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس، سیکریٹری خارجہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں طلب

عافیہ صدیقی اس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک وفاقی جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لانے کے لیے اُن کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رُجوع کر رکھا ہے۔
  • عدالت نے سیکریٹری خارجہ کو پیر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
  • ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کا کوئی کردار نہیں ہے: وزارتِ دفاع کے نمائندے کا عدالت میں بیان
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا وزارتِ دفاع کے جواب پر عدم اطمینان
  • عافیہ امریکہ میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہیں: وکیل عمران شفیق

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان لانے کے کیس میں سیکریٹری خارجہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ سماعت کے دوران وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں آئی ایس آئی ملوث نہیں ہے۔

امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق درخواست کی سماعت جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرنے سے متعلق وزارتِ دفاع کا جواب عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے سیکریٹری خارجہ کو پیر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

عافیہ صدیقی اس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک وفاقی جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ انہیں 2010 میں نیویارک کی وفاقی عدالت نے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش سمیت سات الزامات میں سزا سنائی تھی۔

رپورٹس کے مطابق 2003 میں عافیہ صدیقی کراچی میں اپنے تین کم سن بچوں کے ہمراہ پرسرار طور پر لاپتا ہو گئی تھیں جس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔

امریکی حکام نے کہا تھا کہ انہیں ان کے قبضے سے ایسی دستاویزات ملی تھیں جن میں ڈرٹی بم بنانے کے بارے میں بات کی گئی تھی اور اس میں امریکہ کے مختلف مقامات کی فہرست دی گئی تھی جنہیں نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ عافیہ صدیقی نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کیا تھا۔

عافیہ صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے 2008 میں افغانستان کے صوبہ غزنی میں افغان پولیس کے ایک کمپاؤنڈ میں ایک امریکی فوجی افسر کی رائفل اٹھا لی اور امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی اہل کاروں پر فائرنگ کی جو اس وقت عافیہ کے ’’القاعدہ‘‘ کے ساتھ مبینہ روابط کے بارے میں تفتیش کر رہے تھے۔

جمعے کو سماعت میں کیا ہوا؟

اس کیس میں دورانِ سماعت عدالت نے سیکریٹری دفاع کو طلب کرنے کا کہا تھا۔ لیکن بعد میں تحریری حکم نامے میں سیکریٹری خارجہ کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزارتِ دفاع کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ نمائندہ وزارتِ دفاع کا مؤقف تھا کہ جو بھی الزامات لگائے گئے ہیں اس میں آئی ایس آئی ملوث نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر 10 لاکھ روپے جرمانے کا عندیہ بھی دیا۔ عدالت نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل بھی اگلی سماعت پر مضبوط وجوہات کے ساتھ پیش ہوں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن اور وکیل نے اُن کی رہائی کے لیے امریکہ کو جو درخواست دینی ہے اسے حکومت کے سامنے رکھا جائے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ یہ ان کی ذمے داری نہیں یہ کام تو حکومت کا ہے کہ وہ امریکہ سے بات کرے۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو یہ ہدایات کس نے دی ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہدایات وزارتِ خارجہ میں موجود ڈائریکٹر امریکہ کی جانب سے دی گئی ہیں۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ میں ڈائریکٹر امریکہ کو بلا کر پوچھوں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ اس وقت ملک میں موجود نہیں ہیں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ معاملہ بھی کلئیر کریں ورنہ میں سخت آرڈر جاری کروں گا۔ عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

Your browser doesn’t support HTML5

عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا کیوں ہوئی؟

'عافیہ امریکہ میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں'

اس کیس میں عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کے وکیل ایڈووکیٹ عمران شفیق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عافیہ امریکہ میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ایک جھوٹے مقدمے میں انہیں سزا دی گئی ہے۔ لہذٰا حکومتِ پاکستان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے شہری کے تحفظ کے لیے اقدام کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب حکومت اس میں ناکام ہوئی تو ہم عدالت گئے ہیں کہ حکومت اپنی آئینی ذمے داری ادا کرے۔ امریکہ نے عافیہ کو سزا دی ہے لیکن انہیں وطن واپس لایا جا سکتا ہے تاکہ وہ اپنی باقی سزا یہاں پاکستان میں پوری کریں۔

عمران شفیق کہتے ہیں کہ حکومت کا فرض تھا کہ وہ اس بارے میں کوشش کرتی لیکن حکومت نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی اور عافیہ کو پاکستان لانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

اس سوال پر کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تحویل مجرمان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، اس پر عمران شفیق کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تحویل مجرمان کا اگرچہ کوئی معاہدہ نہیں لیکن اس کے باوجود بھی کئی آپشنز موجود تھے۔

اُن کے بقول حکومتِ پاکستان کو اسی مقصد کے لیے عدالت میں لائے ہیں کہ حکومت نے اس بارے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ ریمنڈ ڈیوس کو جب پاکستان سے لے جانا ہو تو اس کے لیے اقدام ہو جاتے ہیں۔ لیکن پاکستانیوں کی واپسی کے لیے کوئی قانون کوئی ضابطہ نہیں۔

عمران شفیق کہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرنے سے متعلق ریاستی اداروں کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن ہماری دلچسپی صرف اس میں ہے کہ عافیہ کو واپس لایا جائے کیوں کہ اُن کی حالت بہت خراب ہے۔

امریکہ میں عافیہ صدیقی کے وکیل کا بیانِ حلفی

اس کیس کے حوالے سے امریکہ میں عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو اسمتھ نے ایک بیان حلفی بھی عدالت میں جمع کروایا ہے۔

بیانِ حلقی میں کلائیو اسمتھ کا دعویٰ ہے کہ سندھ حکومت نے عافیہ صدیقی کو آئی ایس آئی کے حوالے کیا اور آئی ایس آئی نے عافیہ کو بچوں سمیت امریکہ کے حوالے کردیا۔

تین بچوں کی والدہ 52 سالہ عافیہ صدیقی امریکہ کے مشہور ادارے 'میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی)' اور 'برینڈس یونیورسٹی' سے تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے مقدمے کو شدت پسند اسلامی گروپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مبینہ زیادتیوں کی ایک مثال کے طور پر اچھالتے رہے ہیں۔

شام، الجزائر، افغانستان اور پاکستان میں سرگرم شدت پسند تنظیمیں اپنی تحویل میں موجود غیر ملکی باشندوں کی رہائی کے عوض ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے مطالبات بھی کرتی رہی ہیں۔