اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب ریفرنسز کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر سے کسی اور عدالت میں منتقل کرنے کی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف درخواست پر قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کردیا ہے جب کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کو معطل کرنے کی درخواست پر مقدمے کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔
عدالت نے نواز شریف کی قانونی ٹیم کی جانب سے اگلی سماعت سے قبل سزاؤں کو معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے احتساب عدالت کے ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلے کے خلاف مجرمان کی اپیلوں کی سماعت کی۔
احتساب عدالت نے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا تھا اور ریفرنس میں نامزد دیگر ملزمان اور نواز شریف کے صاحب زادوں حسین اور حسن نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
کیپٹن (ر) صفدر نے فیصلے کے دو دن بعد راولپنڈی سے گرفتاری دی تھی جب کہ نواز شریف اور مریم نواز کو 13 جولائی کی رات لندن سے وطن واپسی پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ تینوں رہنما اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں جہاں ان کی سزا پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق، پرویز رشید اور بیرسٹر ظفراللہ بھی عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے پہلے نوازشریف کی جانب سے فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز کی دوسری عدالت منتقلی کی درخواست کی سماعت کی۔
نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا اور احتساب عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس محسن اختر نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ ریفرنسز کی کیا اسٹیج ہے؟ کیا بارِ ثبوت آپ پر شفٹ کردیا گیا؟ کیا یہ جج کا تعصب تھا؟
خواجہ حارث نے کہا کہ جج کے تعصب کی بات نہیں، جج ایک ریفرنس میں اپنی رائے قائم کرکے فائنڈنگ دے چکے ہیں۔ فیئر ٹرائل کے لیے مناسب یہی ہے کہ دیگر دو ریفرنسز وہ نہ سنیں۔ دیگر دو ریفرنسز میں واجد ضیا پر جرح کررہا ہوں۔ وہ دونوں ریفرنسز میں مشترکہ گواہ ہیں۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ باقی دو ریفرنسز پر کیا رائے دی گئی ہے؟ کیا فیصلے میں دیگر ریفرنسز پر کوئی فائنڈنگ دی گئی ہے؟
خواجہ حارث نے بتایا کہ یہ کیس نہیں ہے۔ وہ ایک کیس میں اپنی مکمل رائے دے چکے ہیں۔ جج محمد بشیر دیگر دو ریفرنسز کو نہیں سن سکتے۔
ابتدائی دلائل کے بعد عدالت نے ریفرنسز منتقلی کی درخواست مسترد کرنے کے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نواز شریف کی اپیل قابلِ سماعت قرار دے دی۔
تاہم عدالت نے نوازشریف کی جانب سے فیصلے تک حکمِ امتناع دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نیب کو نوٹس جاری کردیے اور درخواست کی مزید سماعت جولائی کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی۔
بعد میں مجرمان کی سزاؤں کی معطلی کی درخواست کے سماعت کے دوران ہائی کورٹ نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر لیا اور تفتیشی افسر کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔
دوران سماعت نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس ہے۔ احتساب عدالت کے فیصلے میں اثاثہ جات کی قدر و قیمت نہیں بتائی گئی۔ جب اثاثہ جات کی حقیقی قیمت کا علم نہ ہو تو کیسے زائد اثاثہ جات کا الزام ثابت ہو سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ اور نیب کے گواہ واجد ضیا سے بھی پوچھا تھا کہ پراپرٹی کی قیمت بتائیں تو وہ بھی ناکام رہے۔ ہم سزا کی معطلی چاہتے ہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے استفسار کیا کہ استغاثہ نے آپ کے خلاف کیا شواہد پیش کیے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ استغاثہ نے صرف یہ کہا کہ نواز شریف کے بچوں کا 1993ء سے 1996ء تک کاروبار نہیں تھا اور وہ نواز شریف کے زیرِ کفالت تھے۔ لیکن واجد ضیا نے ایسا کوئی ثبوت نہیں دیا کہ بچے کاروبار کے لیے والد کے زیرِ کفالت تھے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ٹائٹل دستاویزات ریکارڈ پر ہیں؟ ان میں مالک کون ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پراپرٹی کی مالک دو کمپنیاں تھیں۔ اس پراپرٹی سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے پوچھا کہ کیا شواہد و ثبوت کی کڑیاں آپس میں ملتی نہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی بالکل شواہد کا لنک موجود ہی نہیں۔ تقاریر میں بھی نواز شریف نے نہیں کہا کہ پراپرٹی میری ہے۔ کسی ٹرانزیکشن پر بھی دستخط نہیں کیے۔ نواز شریف کی ملکیت سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ فیصلہ پڑھیں اس میں کہیں نواز شریف کی ملکیت کا ذکر نہیں ہوگا۔
جسٹس محسن کیانی نے پوچھا کہ کیا معلوم ذرائع آمدن ریکارڈ پر آ چکے ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ یہی تو دلچسپ صورتِ حال ہے کہ معلوم ذرائع آمدن ہی ریکارڈ پر نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز سے پوچھا کہ مریم کو کس بنیاد پر سزا ہوئی؟
امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز اس پراپرٹی کی مالک نہیں۔ صرف موزیک فونسیکا کے 2012ء میں لکھے گئے خطوط پر انحصار کیا گیا۔
کیپٹن (ر) صفدر کو کیلیبری فونٹ کی ٹرسٹ ڈیڈ کے گواہ ہونے پر سزا سنائی گئی۔ ٹرسٹ ڈیڈ کے چار گواہ ہیں۔ سب نے ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی۔
عدالت نے شریف خاندان کے خلاف تفتیشی افسر اور استغاثہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو اگلی سماعت پر عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ عدالت نے سماعت جولائی کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں احتساب عدالت اسلام آباد میں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں شریف فیملی کی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہیں۔
اس پر احتساب عدالت نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے کیا حکم ہوتا ہے، اس کا انتظار کر لیتے ہیں۔
نواز شریف کے وکیل سعد ہاشمی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم نے ریفرنس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ میں نے آپ کی دونوں درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دی تھیں۔ میں نے بھی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی ہے۔ کیا لگتا ہے آج فیصلہ آ جائے گا؟ سنا ہے وزارت قانون نے بھی جیل میں ٹرائل کی درخواست کی ہے۔
جج محمد بشیر نے کہا کہ خواجہ حارث کب آئیں گے؟ ان سے جیل ٹرائل اور دیگر دو ریفرنسز کا طے کریں گے۔ شام تک ہائی کورٹ سے بھی فیصلہ آ جائے گا۔ سماعت کل تک ملتوی کر دیتے ہیں۔ کل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی آ جائیں گے۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
گزشتہ روز شریف فیملی کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دینے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس سننے سے معذرت کر لی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو تحریر خط میں جج محمد بشیر نے موقف اپنایا تھا کہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
خط میں جج محمد بشیر نے کہا تھا کہ وہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کرچکے ہیں، لہذا العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت نہیں کرسکتے۔ اگر ہائی کورٹ چاہے تو کا کا ٹرانسفر کر دے۔