اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
جمعے کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور دیگر صحافتی تنظیموں کی درخواست پر سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا ۔
عدالت نے چار صفحات پر مشتمل فیصلے میں پیکا ترمیمی آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل 14 اور 19 سے متصادم قرار دیا۔
خیال رہے کہ صحافتی تنظیموں کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی پیکا ترمیمی آرڈیننس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
پاکستان میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) میں رواں برس ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت جھوٹی یا جعلی خبر دینے پر پانچ سال تک کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ اس حکم نامے پر سیاسی رہنماؤں، سوشل میڈیا کے کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی تھی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہتکِ عزت کے قوانین کا جائزہ لے، اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عدالت کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ سیکریٹری داخلہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے طرزِعمل کی تحقیقات کرے کیونکہ اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا جس کے نتیجے میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی تو جواب دے، لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، ایف آئی اے نے عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور ان کو پامال بھی کیا گیا۔ کیسز میں ایسے سیکشن لگائے گئے جو لگتے ہی نہیں تھے۔بعض سیکشن صرف اس لیے لگائے گئے تاکہ عدالت سے بچا جا سکے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ قانون بنا ہوا ہے اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کسی عام آدمی کے لیے ایکشن لیا؟ ایک کیس میں لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا۔
ایف آئی اے ڈائریکٹر نے دلائل میں کہا کہ ہم ایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری ڈال دیتے ہیں اور پھر اس سے برآمدگی پر ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔اس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیسے گرفتار کر سکتے ہیں اور کس قانون کے مطابق گرفتاری ڈال سکتے ہیں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے بتایا کہ ایک صحافی بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا بلال غوری نے کتاب کا حوالہ دیا تھا،کارروائی کیسے بنتی ہے؟
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے پیکا آرڈیننس 2022 کو کالعدم قرار دے دیا۔
سیاسی جماعتوں اور صحافتی تنظیموں کا ردِعمل
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیریں رحمان نے ایک بیان میں کہا کہ پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے پر صحافیوں اور پورے پاکستان کو مبارکباد پیش کرتی ہوں،24 گھنٹوں کے اندر عدالت نے پی ٹی آئی حکومت کے ایک اور عمل کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ پیکا آرڈیننس مخالفین کو نشانا بنانے کے لیے لایا گیا تھا،یہ آرڈیننس آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ایک حکومتی ہتھکنڈا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں میڈیا اور آزادیٔ اظہار پر قدغنیں لگائی گئی، اب تحریکِ انصاف کے تمام غیر جمہوری اور غیر قانونی اقدامات واپس ہوں گے۔
اس فیصلہ پر پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ نے کہا کہ اس قانون کی آڑ میں صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ہم اس قانون کے واپس ہونے پر مطمئن ہیں کہ انصاف اور قانون کا بول بالا ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیکا ترمیمی آرڈیننس میں کیا تھا؟
صدر عارف علوی کے پیکا سے متعلق ترمیمی ایکٹ میں شخص کی تعریف شامل کر دی گئی تھی۔ شخص میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل تھا۔
آرڈیننس کے مطابق سیکشن 20 میں ترمیم کے بعد کسی بھی فرد کے تشخص کے خلاف حملے کی صورت میں تین سال قید کی سزا کو بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا تھا جب کہ متاثرہ فریق، اس کے نمائندے یا گارڈین کو شکایت درج کرانے کا حق دیا گیا تھا۔
اس آرڈیننس کے مطابق کسی بھی فرد کے تشخص کے خلاف حملے کے کو جرم قابلِ دست اندازی قرار دے دیا گیا تھا اور اسے ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت آنے والے کیسز پر ٹرائل کورٹ کو چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔
آرڈیننس کے تحت ٹرائل کورٹ کو ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ میں جمع کرانے کا بھی پابند کیا گیا تھا۔
پیکا ترمیمی ایکٹ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور متعلقہ افسران کو قانون پر عمل درآمد میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک جج اور دیگر افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرنے کا اختیار بھی دیا گیا تھا۔