|
عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ-خراسان نے پیر کے روز پشتو میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ماسکو میں ایک کنسرٹ ہال پر جمعہ کو ہونے والے حملے کی تعریف کی گئی اور افغان طالبان کو امریکہ، روس، چین اور دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات کے خواہاں ہونے پر سرزنش کی گئی ہے۔
30 صفحات پر مشتمل یہ بیان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شائع کیا گیا اور پیر کو صحافیوں کو بھیجا گیا تاہم گروپ نے ماسکو حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اس کے بجائے، اس نے توجہ افغانستان میں طالبان پر تنقید پر مرکوز کی ہے جن کی طویل عرصے سے داعش (خراسان) سے دشمنی ہے۔
اسلامک اسٹیٹ-خراسان یا داعش خراسان، بڑے عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کا علاقائی الحاق ہے، جس نے جمعہ کے اس حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں 137 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیر کے بیان کا عنوان تھا، "ماسکو کے حملے کے بعد: ملیشیاؤں کا دکھ اور خوف۔" "ملیشیاؤں" کا اشارہ بظاہر افغان طالبان کی طرف ہے۔
بیان کا متن افغان طالبان کے خلاف شدید تنقید پر مشتمل ہے۔ اس میں طالبان کو امریکہ، روس، چین، پاکستان اور تاجکستان کا اتحادی بھی قرار دیا گیا ہے۔ طالبان نے جمعہ کو ہونے والے حملے کے چند گھنٹوں بعد اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گرد حملہ اور انسانی اقدارکی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
داعش خراسان کے بیان میں طالبان پر "کافر" ممالک کی اقدار کو قبول کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
بیان میں افغان طالبان کی جانب سے ماسکو حملے کی مذمت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے،"طالب ملیشیا اب کافر قوم کا حصہ ہیں۔ لہٰذا یہ قدرتی بات ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہمدردی کریں گے اور ان کا دکھ بانٹیں گے،‘‘
SEE ALSO: ماسکو کنسرٹ حملہ:4 مبینہ حملہ آور گرفتار، ملزمان یوکرین فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، پوٹن30 صفحات پر مشتمل بیان میں کنسرٹ کے مبینہ حملہ آوروں کی تصاویر، افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کے دیگر حملوں، اور طالبان رہنماؤں اور وزراء کی ایسی تصاویر شامل ہیں جن میں وہ امریکی، چینی، ایرانی اور پاکستانی حکام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
طالبان کے خلاف تنقید میں شام میں داعش کے اہداف پر روس کے حملوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے،اور سوال گیا گیا ہے کہ طالبان نے ماسکو سے ہمدردی کا اظہار کیوں کیا؟
بیان میں سوال کیا گیا ہے."کیا روس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہماری امت [مسلمانوں] کی مساجد، مدارس، گھروں اور قصبوں کو اندھا دھند بمباری سے تباہ کرے؟"
داعش خراسان کب بنی؟
داعش نے پاکستان اور افغانستان کے لیے 'خراسان' کے نام سے تنظیم 2015 میں تشکیل دی تھی۔ پاکستان میں داعش کو پہلے مرحلے میں اس وقت کامیابی حاصل ہوئی تھی جب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک دھڑے ، لشکرِ جھنگوی اور لشکرِ جهنگوی العالمی نے باضابطہ طور پر داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کی بیعت کی تھی۔
2022 میں افغان صوبے کنڑ سے تعلق رکھنے والے ایک افغان صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ 2014 میں پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے شدت پسند افغانستان کے ملحق صوبوں ننگرہار اور کنڑ منتقل ہو گئے، جہاں افغان طالبان سے الگ ہونے والے رہنماؤں اور شدت پسندوں نے ساتھ مل کر ان صوبوں کو داعش کا گڑھ بنا دیا۔
صحافی کا کہنا تھا کہ ننگرہار اور کنڑ میں سلفی مکتبِ فکر کے علمائے کرام کی بھی داعش کو حمایت حاصل تھی۔ البتہ افغان طالبان، افغان سیکیورٹی فورسز اور امریکی فضائی حملوں کی وجہ سے داعش فرور ی 2020 میں تقریباً ختم ہو کر رہ گئی۔
اُن کے بقول امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں امن معاہدہ ہوتے ہی داعش خراسان نے دوبارہ فعال ہونے کی کوششیں شروع کی اور دونوں فریقوں کے مابین سیاسی پیش رفت کو روکنے کے لیے اپنے حملوں کے ذریعے ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد داعش خراسان دوبارہ فعال ہو چکی ہے اور کابل، قندھار، قندوز اور ننگرہار سمیت ملک کے مختلف حصوں میں اپنے حملوں کے ذریعے طالبان کی حکمرانی کو چیلنج کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کی دیوا سروس کی رپورٹ۔