|
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزالل سموٹریچ نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے مختص ٹیکس فنڈز میں سے 2 کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ رقم دہشت گردی کے شکار اسرائیلیوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کی جائے گی۔
وزارت خزانہ نےاتوار کو دیر گئے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا کہ فنڈز کی ضبطگی "دہشت گردی سے نمٹنے کے اقدامات کا حصہ" ہے۔
بیان میں سموٹریچ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی پر،جو اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر حکومت کرتی ہے فنڈز کا رخ "دہشت گردوں کے خاندانوں" کی جانب موڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔
وزارت خزانہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ پانچواں موقع ہے جب اس نے وہ فنڈز روکےہیں جو اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے جمع کرتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواستوں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
اسرائیلی سیاست دان رملہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی پر، اسرائیل کے خلاف تشدد کی کارروائیوں میں ہلاک یا جیل میں ڈالے گئے فلسطینیوں کے خاندانوں کو مالی امداد دینے پر تنقید کرتے رہے ہیں ۔
SEE ALSO: غزہ جنگ کے بعد گرفتار فلسطینیوں کو اسرائیل میں تشدد اور ناروا سلوک کا سامنا ہے: اقوام متحدہسات اکتوبر کو جب سے حماس کے دہشت گردحملے کے نتیجے میں غزہ کی جنگ شروع ہوئی ہے، اسرائیل نے بارہا ان ٹیکس محصولات کو روکتے ہوئے، جو وہ فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے جمع کرتا ہے، اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں ۔
سموٹریچ نے پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ فلسطینی فنڈز کوروکنا، ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ فلسطینی ریاست کے قیام کو روکا جا سکے، اور مغربی کنارے کی توسیعی بستیوں میں اسرائیلیوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ،"ہم تعمیرات کے ذریعے آبادکاری کو مستحکم کر تے ہوئے، فلسطینی اتھارٹی اور اس کے رہنماؤں کےلئے دہشت گردی فنڈز کی رسائی روکتے ہوئے اور علاقے پراسرائیل کا مکمل کنٹرول برقرار رکھتے ہوئے ،اس خطرے ( کسی فلسطینی ریاست کی تشکیل ) کو دور کرنے کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ "
SEE ALSO: مغربی کنارے میں بڑے رقبے پر اسرائیل کا قبضے کا اعلان، نئی بستیوں کی تعمیر کا تازہ ترین منصوبہاسرائیل کا مغربی کنارے پر قبضہ
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا، وہ علاقے جو فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔
اسرائیل کی موجودہ حکومت مغربی کنارے کو یہودیوں کا تاریخی اور مذہبی مرکز سمجھتی ہے اورکسی فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتی ہے۔
اسرائیل مغربی کنارے میں 100 سے زیادہ بستیاں تعمیر کر چکا ہے ، جن میں سے کچھ مکمل طور پر ترقی یافتہ مضافاتی علاقوں یا چھوٹے شہروں سے ملتی جلتی ہیں۔ وہاں 5 لاکھ سے زیادہ ایسے یہودی آباد کاروں کے گھر ہیں جن کے پاس اسرائیلی شہریت ہے۔
فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع کو کسی بھی پائیدار امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو ایک مربوط ریاست کے کسی بھی امکان کو روکتا ہے۔
زیادہ تر بین الاقوامی برادری ان بستیوں کو غیر قانونی یا ناجائز سمجھتی ہے۔
SEE ALSO: فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے، عالمی عدالتِ انصافمغربی کنارے میں 30 لاکھ فلسطینی اسرائیلی فوجی حکمرانی کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی پورے علاقے میں پھیلے ہوئے انکلیو کا انتظام کرتی ہے، لیکن اسے مغربی کنارے کے 60فیصد حصے میں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے، جس میں بستیوں کے ساتھ ساتھ لاکھوں فلسطینیوں کی آبادی والے علاقے بھی شامل ہیں۔
حماس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے جواز کے طور پر مغربی کنارے کی بستیوں کی توسیع کا حوالہ دیا تھا، جس میں فلسطینی عسکریت پسندوں نے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اور تقریباً 250 کو یرغمال بنایا۔
اسرائیل نے جواب میں بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی ہے جس میں مقامی صحت کے حکام کے مطابق، جو یہ نہیں بتاتے کہ کتنے جنگجو تھے، 39,900 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔