|
ویب ڈیسک۔۔۔۔اسرائیل نے بیجنگ میں چین کی ثالثی میں منگل کو طے پانے والے اس معاہدے کی فوری طور پر مذمت کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کی قومی مصالحتی حکومت میں حماس کو شریک کیا جائے گا۔
یہ سفارتی تنازع ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل غزہ اور جنوبی شہر خان یونس کو، جہاں اس نے مقامی آبادی کو جزوی انخلا کا حکم دیا تھا، اپنے حملوں کا ہدف بنا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز نے حماس کو کچلنے کے حکومتی عزم کو دہراتے ہوئے فلسطینی صدر محمود عباس پر، جن کے الفتح دھڑے نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جنگ کا سبب بننے والے 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث گروپ کو گلے لگانے کا الزام لگایا۔
فلسطینی دھڑوں کا معاہدہ اسرائیل اور امریکہ کو قبول نہیں
جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ پر حکمرانی میں حماس کی شمولیت اسرائیل اور امریکہ کو کسی بھی طرح قبول نہیں ہو گی۔
اسرائیلی وزیراعظم ان دنوں واشنگٹن کے دورے پر ہیں جہاں وہ بدھ کے روز امریکی کانگریس سے خطاب کرنے والے ہیں۔ وہ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا ہے کہ واشنگٹن اندرونی طور پر ہونے والے کسی بھی فلسطینی اتفاق رائے کے خلاف ہے ، جس میں ہمارے لوگوں کے خلاف جرائم میں ملوث گروپ شراکت دار ہو۔
حماس کے سیاسی بیورو کے ایک رکن حسین بدران نے چین کی شرکت کو امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ قرار دیا ہے۔
فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے لیے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے حماس کے سینئر عہدے دار موسیٰ ابو مرروق، الفتح کے ایلچی محمود العلول اور دیگر 12 دھڑوں کے نمائندوں کی میزبانی کی۔
سیکرٹری جنرل گوتریس کا معاہدے کا خیر مقدم
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے منگل کو حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں کے درمیان غزہ میں قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل کے لیےمصالحت کے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ۔
گوتریس کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ ،"میرے خیال میں اتحاد کی جانب تمام اقدامات کا خیرمقدم اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے،" انہوں نے مزید کہا کہ ، گوتریس "فلسطینی دھڑوں کی طرف سے بیجنگ اعلامیہ پر دستخط کا بہت خیرمقدم کرتے ہیں۔"
حماس اور الفتح حریف فلسطینی دھڑے ہیں جن کے درمیان 2007 میں مختصر جنگ بھی ہو چکی ہے جس میں حماس نے غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔
فتح گروپ کا اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے مغربی کنارے پر محدود انتظامی کنٹرول ہے۔
بیجنگ کے معاہدے میں عبوری حکومت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے
بیجنگ میں طے پانے والے معاہدے میں فلسطینی دھڑوں کے تحت ایک عارضی قومی حکومت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو تمام فلسطینی علاقوں پر اپنا اختیار استعمال کرے گی۔
اس سے قبل پچھلے سال چین نے خطے کے دو بڑے حریفوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کے معاہدے میں بھی ثالثی کی تھی۔
اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز نے محمود عباس پر قاتلوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو گلے لگانے کا الزام لگاتے ہوئے غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی کردار کے امکان کو مسترد کر دیا۔
دوسری جانب غزہ میں زمینی صورت حال بدستور خون اور بارود میں لتھڑی ہوئی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملے جاری
منگل کے روز اسرائیلی جنگی طیاروں نے خان یونس کے کئی حصوں پر بم برسائے۔ غزہ کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں 73 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہو ئے جس کے بعد ہلاک ہونے والوں کی تعداد 39090 سے بڑھ گئی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کا بڑا حملہ نو ماہ سے جاری جنگ کا سبب بنا ہے۔ حماس کے حملے میں تقریباً۔ 1200 افراد ہلاک ہوئے اور وہ لگ بھگ ڈھائی سو کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔
اسرائیلی فوج نے ہلاکتوں کی تعداد کے متعلق تو کچھ نہیں کہا، لیکن یہ دعویٰ کیا ہے اس کے لڑاکا طیاروں اور ٹینکوں نے علاقے میں موجود دہشت گردوں کو ختم کر دیا ہے۔
فوج کا کہنا تھا کہ خان یونس آپریشن میں دہشت گردی کے 50 سے زیادہ انفراسٹرکچرز کو ہدف بنایا گیا۔
نو ماہ سے جاری جنگ نے غزہ کی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے اور صحت کے مراکز کی علاج معالجے کی صلاحیت ختم کر دی ہے۔ خان یونس کے ناصر اسپتال کے ڈائریکٹر محمد زقوت نے اے ایف پی کو بتایا کہ مریضوں کے لیے جگہ باقی نہیں رہی۔ آپریشن تھیٹرز میں بھی جگہ نہیں ہے۔ طبی سامان کی شدید قلت ہے۔ہم اپنے مریضوں کو نہیں بچا سکتے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 14000 سے زیادہ لوگوں کو علاج معالجے کے لیے غزہ سے باہر لے جانے کی ضرورت ہے۔ علاقے میں وبائی امراض پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم