حقوق انسانی سے متعلق گروہوں نے اسرائیل کی اِس تجویز کی مذمت کی ہے جس کے تحت مغربی کنارے میں فلسطینیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اُس بس پر سفر نہیں کر سکتے جس میں اسرائیلی آبادکار سوار ہوں۔
یہ تجویز وزیر دفاع، موشے یعلون نے پیش کی ہے، جس میں وہ فلسطینی جو اسرائیل میں کام کرتے ہیں، وہ اُسی چوکی سے واپس ہوں گے جہاں سے وہ داخل ہوئے تھے۔
عملاً، اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسطینی کارکن وہ بسیں استعمال نہیں کر پائیں گے جن میں اسرائیلی آبادکار سوار ہیں، جن میں سے کچھ یہ خیال کرتے ہیں کہ فلسطینی مسافر سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
کافی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نسل کی بنیاد پر لوگوں کو اس طرح کی تفریق، نسلی امتیاز کے زمرے میں آتی ہے، اور فلسطینیوں کے نقل و حمل پر پہلے ہی سے کئی پابندیاں عائد ہیں، جن کے بدتر نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
تاہم، اسرائیلی دفاع کے ایک اعلیٰ اہل کار نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مجوزہ ضابطے کا مقصد صرف یہ ہے کہ فلسطینیوں کے بارے میں ’نگرانی کے نظام کو بہتر بنایا جائے‘، اور ’حملے کے امکان کو کم سے کم کیا جائے‘۔
اہل کار نے اس بات بھی زور دیا کہ اس ضابطے کے ذریعے ’مشترکہ نقل و حمل‘ کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے جارہے ہیں، نہی فلسطینیوں کو کام سے روکا جارہا ہے۔
اس وقت فلسطینی کارکنوں پر لازم ہے کہ وہ ایئال کی چوکی کو استعمال کرکے اسرائیل میں داخل ہوں، جہاں اُنھیں سخت چھان بین کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
اور واپسی پر کسی بھی چوکی سے وہ واپس جاسکتے ہیں، جس کے لیے وہ اُن بسوں کا استعمال کرسکتے ہیں جو اسرائیلی آبادکاروں کے زیر استعمال ہیں۔
اس نئی تجویز کے تحت، یہ مزدور صرف ’ایئال‘ کی چوکی سے واپس ہوں گے، جہاں اُنھیں پھر سے سکیورٹی کے ضابطوں سے گزرنا پڑے گا۔
ایتان ڈائمنڈ، ’غیشا‘ نامی غیر سرکاری اسرائیلی تنظیم کے انتظامی سربراہ ہیں، جو فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حمل پر دھیان مرکوز رکھتی ہے۔ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ فلسطینی کارکن سکیورٹی کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
اس سے قبل، اِسی ہفتےاسرائیلی اٹارنی جنرل، یہودہ وائنسٹائن نے اپنے ایک مراسلے میں دفاع کے وزیر یعلون سے مطالبہ کیا وہ نو نومبر تک اپنے نئے ضابطوں کے منطق کو واضح کریں۔ یہ قانون دسمبر میں کسی وقت بھی لاگو ہوجائے گا۔
بدھ کے روز، وزیر دفاع، یعلون نے اپنے ضابطے کا دفاع کرتے ہوئے قانون سازوں کے ایک گروپ کو بتایا کہ جب ایک بس میں 20 عرب سفر کر رہے ہوں، جس کا ڈرائیور یہودی ہو، اور دو سے تین مسافر اور ایک مسلح فوجی بیٹھا ہو، ایسے میں دہشت گرد حملہ یقیناً ہوگا۔