’اسرائیل کے ساتھ امن کرنے کی بجائے وہ حماس کے ساتھ امن کی باتیں کر رہے ہیں۔ صدر عباس کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔۔۔‘
واشنگٹن —
اسرائیلی وزیر ِاعظم بنجمن نیتن یاہو جمعرات کے روز اپنی سیکورٹی کابینہ سے ملاقات کر رہے ہیں۔
اس ملاقات کا مقصد فلسطین میں مخالف گروپوں الفتح اور اسلام پسند مزاحمتی تنظیم حماس میں اتحاد اور فلسطین میں معاہدے پر اسرائیلی رد ِعمل کے لیے لائحہ ِ عمل طے کرنا ہے۔
اسرائیلی وزیر ِ اعظم نے بدھ کے روز الفتح اور حماس کے درمیان ہونے والے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ، ’فلسطینی صدر محمود عباس جن کا تعلق الفتح جماعت سے ہے، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کو پیچیدہ بنا رہے ہیں‘۔
اسرائیلی وزیر ِاعظم کے الفاظ، ’اسرائیل کے ساتھ امن کرنے کی بجائے وہ حماس کے ساتھ امن کی باتیں کر رہے ہیں۔ صدر عباس کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ کیا وہ حماس کے ساتھ امن کرنا چاہتے ہیں یا کہ اسرائیل کے ساتھ‘۔
نیتن یاہو نے حماس کو ’قاتل دہشت گرد تنظیم قرار دیا جو اسرائیل کی تباہی چاہتی ہے‘۔
اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ 2007ء میں حماس اور فتح نے اپنی راہیں الگ کر لی تھیں۔
واشنگٹن میں محکمہ ِخارجہ کی ترجمان جین ساکی کے مطابق واشنگٹن کو اس خبر پر ’مایوسی‘ ہوئی۔ جین ساکی کے مطابق اس خبر سے خطے میں امن مذاکرات پیچیدہ صورت اختیار کر جائیں گے۔
اس ملاقات کا مقصد فلسطین میں مخالف گروپوں الفتح اور اسلام پسند مزاحمتی تنظیم حماس میں اتحاد اور فلسطین میں معاہدے پر اسرائیلی رد ِعمل کے لیے لائحہ ِ عمل طے کرنا ہے۔
اسرائیلی وزیر ِ اعظم نے بدھ کے روز الفتح اور حماس کے درمیان ہونے والے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ، ’فلسطینی صدر محمود عباس جن کا تعلق الفتح جماعت سے ہے، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کو پیچیدہ بنا رہے ہیں‘۔
اسرائیلی وزیر ِاعظم کے الفاظ، ’اسرائیل کے ساتھ امن کرنے کی بجائے وہ حماس کے ساتھ امن کی باتیں کر رہے ہیں۔ صدر عباس کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ کیا وہ حماس کے ساتھ امن کرنا چاہتے ہیں یا کہ اسرائیل کے ساتھ‘۔
نیتن یاہو نے حماس کو ’قاتل دہشت گرد تنظیم قرار دیا جو اسرائیل کی تباہی چاہتی ہے‘۔
اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ 2007ء میں حماس اور فتح نے اپنی راہیں الگ کر لی تھیں۔
واشنگٹن میں محکمہ ِخارجہ کی ترجمان جین ساکی کے مطابق واشنگٹن کو اس خبر پر ’مایوسی‘ ہوئی۔ جین ساکی کے مطابق اس خبر سے خطے میں امن مذاکرات پیچیدہ صورت اختیار کر جائیں گے۔