واشنگٹن —
امریکہ نے کہا ہے کہ اسے فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت 'تنظیمِ آزادی فلسطین (پی ایل او)' اور اسلام پسند مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے درمیان ہونے والی والی مفاہمت پر "مایوسی" ہوئی ہے۔
بدھ کو واشنگٹن میں معمول کی پریس بریفنگ کےد وران امریکی محکمۂ خارجہ کی خاتون ترجمان جین پساکی نے دونوں فلسطینی گروہوں کے درمیان معاہدے کے وقت کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کو اس سمجھوتے پہ افسوس ہوا ہے۔
امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے امریکی سرگرمیوں اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات جاری رکھنے کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچے گا۔
محکمۂ خارجہ کی ترجمان نے بتایا کہ اعلیٰ امریکی حکام نے معاہدے پر اپنے تحفظات سے فلسطینی حکومت کو آگاہ کردیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سمجھوتے کے بعد اسرائیل سے یہ توقع کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ ایک ایسی فلسطینی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے گا جو اس کے وجود کا حق ہی تسلیم نہیں کرتی۔
خیال رہے کہ فلسطینی علاقے 'غزہ' پر حکمران 'حماس' اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات کی مخالف ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مسلح مزاحمت کی حامی ہے۔
امریکہ، اسرائیل اور کئی یورپی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
بدھ کو 'پی ایل او (الفتح)' اور 'حماس' کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق دونوں گروہ آئندہ پانچ ہفتوں میں قومی حکومت تشکیل دیں گے جس کے بعد چھ ماہ کے اندر قومی انتخابات کرائے جائیں گے۔
اس معاہدے کا اعلان فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امریکی کوششوں سے ہونے والے امن مذاکرات میں بار بار پیدا ہونے والے تعطل کے بعد کیا گیا ہے جسے عباس حکومت کا اسرائیل کے خلاف جوابی اقدام سمجھا جارہا ہے۔
معاہدے کے اعلان کے بعد اسرائیل نے فلسطینی حکام کے ساتھ یروشلم میں بدھ کی شب ہونے والے مذاکرات کا دور منسوخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے امن کے بجائے 'حماس' کا انتخاب کرکے اپنی ترجیحات واضح کردی ہیں۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنی سکیورٹی کابینہ کا ہنگامی اجلاس جمعرات کو طلب کرلیا ہے جس میں فلسطینی گروہوں کے درمیان معاہدے پر اسرائیل کے باضابطہ ردِ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دریں اثنا 'الفتح' اور 'حماس' کے درمیان معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد ہی اسرائیلی طیاروں نے 'حماس' کے زیرِانتظام فلسطینی علاقے غزہ پر فضائی حملہ کیا ہے جس میں 12 عام شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
بدھ کو واشنگٹن میں معمول کی پریس بریفنگ کےد وران امریکی محکمۂ خارجہ کی خاتون ترجمان جین پساکی نے دونوں فلسطینی گروہوں کے درمیان معاہدے کے وقت کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کو اس سمجھوتے پہ افسوس ہوا ہے۔
امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے امریکی سرگرمیوں اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات جاری رکھنے کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچے گا۔
محکمۂ خارجہ کی ترجمان نے بتایا کہ اعلیٰ امریکی حکام نے معاہدے پر اپنے تحفظات سے فلسطینی حکومت کو آگاہ کردیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سمجھوتے کے بعد اسرائیل سے یہ توقع کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ ایک ایسی فلسطینی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے گا جو اس کے وجود کا حق ہی تسلیم نہیں کرتی۔
خیال رہے کہ فلسطینی علاقے 'غزہ' پر حکمران 'حماس' اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات کی مخالف ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مسلح مزاحمت کی حامی ہے۔
امریکہ، اسرائیل اور کئی یورپی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
بدھ کو 'پی ایل او (الفتح)' اور 'حماس' کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق دونوں گروہ آئندہ پانچ ہفتوں میں قومی حکومت تشکیل دیں گے جس کے بعد چھ ماہ کے اندر قومی انتخابات کرائے جائیں گے۔
اس معاہدے کا اعلان فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امریکی کوششوں سے ہونے والے امن مذاکرات میں بار بار پیدا ہونے والے تعطل کے بعد کیا گیا ہے جسے عباس حکومت کا اسرائیل کے خلاف جوابی اقدام سمجھا جارہا ہے۔
معاہدے کے اعلان کے بعد اسرائیل نے فلسطینی حکام کے ساتھ یروشلم میں بدھ کی شب ہونے والے مذاکرات کا دور منسوخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے امن کے بجائے 'حماس' کا انتخاب کرکے اپنی ترجیحات واضح کردی ہیں۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنی سکیورٹی کابینہ کا ہنگامی اجلاس جمعرات کو طلب کرلیا ہے جس میں فلسطینی گروہوں کے درمیان معاہدے پر اسرائیل کے باضابطہ ردِ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دریں اثنا 'الفتح' اور 'حماس' کے درمیان معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد ہی اسرائیلی طیاروں نے 'حماس' کے زیرِانتظام فلسطینی علاقے غزہ پر فضائی حملہ کیا ہے جس میں 12 عام شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔