تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل غزہ کی سرحد پر ٹینک جمع کررہا ہے ،اپنےریرزو فوجیو ں کو متحرک کر رہا ہے،وزرا کہہ رہے ہیں کہ اب زمینی حملہ” اگر” کا نہیں بلکہ” کب “ کا معاملہ ہے۔ یہ سب اشارے ہیں کہ ایسا حملہ ناگزیر ہے ۔
یہ متوقع حملہ کیسے ہوگا ؟ اسے کس قسم کی مزاحمت کا سامنا ہوگا ؟اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ جنگ کتنی طویل ہوگی ؟ اور اسرائیل اور حماس اپنےماضی کے تجربات اور نئے وسائل کا استعمال کیسے کریں گے ؟ کیا حماس کو ختم کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ اسرائیل کا خیال ہے؟ کیا عسکریت پسند گروپ امریکہ کی کھلی حمایت کے حامل اسرائیل کا مقابلہ کر سکے گا ؟ اور اگر کر سکے گا تو کیسے اور کب تک؟
ان سوالات پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اسرائیل کو کیسے دشمن کا سامنا ہوگا
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو غزہ پر کسی بھی حملےکی صورت میں ایک ایسے دشمن کا سامنا ہوگا جس نے ایران کی مدد سے ایک مضبوط اسلحہ خانہ بنا لیا ہے ، حملہ آوروں سے بچنے کےلیے سرنگوں کا ایک نیٹ ورک تیار کر لیا ہے اور جو ماضی کی زمینی جنگوں میں یہ دکھا چکا ہے کہ وہ ہر بار اسرائیلی فوجیوں کو پہلے سےزیادہ جانی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اسرائیلی سیکیورٹی کے ایک ذریعے اور ماہرین نے کہاہے کہ غزہ پر کسی بھی حملے کی صورت میں اسرائیل جنرلز 2008 اور 2014 کی زمینی جنگوں سے سیکھے ہوئے سبق کو مد نظر رکھیں گے ۔ ان جنگوں کا مقصد بھی فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کو کچلنا تھا ۔
حماس اس وقت کے مقابلے میں اب پہلے سے زیادہ سخت مقابل کے طور پر سامنے آیا ہے ۔اور سات اکتوبر کو اس نے اپنے قیام کے بعد سے اسرائیلی سرزمین پر ایک مہلک ترین حملے میں اپنی صلاحیت کا سب سے تباہ کن مظاہرہ اس وقت کیا جب اس کے جنگجووں نے 1300 سے زیادہ اسرئیلیوں کو ہلاک کردیا جن میں بیشتر عام شہری تھے۔
جوابی کارروائی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک غزہ کے1400 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
زمینی جنگ میں کیا کچھ ہو سکتا ہے؟
کسی بھی فریق پر یہ واضح نہیں ہے کہ زمینی جنگ میں کیا کچھ ہو سکتا ہے ۔ اسرائیل نے ایک ایسی مہم کا عزم کیا ہے جس میں حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے پہلے سے زیادہ وسائل اور ہتھیار استعمال کیے جائیں گے ۔
جب کہ حماس اپنی بقا اور حیران کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکی ہے اور وہ طاقتور ہتھیاروں کے ساتھ گنجان آباد علاقوں میں لڑ رہی ہوگی ۔
غزہ کے فلسطینی عسکریت پسند دھڑوں کے ایک عہدے دار نے اپنا نام ابو عبداللہ بتاتے ہوئے رائٹرز سے بات کی ۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے کوئی بھی حملہ اپنی فورسز کو کسی نامعلوم مقام کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔
SEE ALSO: اسرائیلی توپیں ہر 30 سیکنڈ میں غزہ پر گولہ باری کرتی ہیںسرنگوں کا نیٹ ورک اور اسرائیلی یرغمال
اسرائیلی عہدے دار یہ واضح کر چکےہیں کہ یہ کوئی تیزرفتاراور آسان مہم نہیں ہوگی ۔ اور اس بار اسے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ حماس سات اکتوبر کو یرغمال بنانے والے بیسیوں اسرائیلوں کو ان تنگ سرنگوں کے جال میں رکھ سکتا ہے جسے اسرائیلی فوجی غزہ میٹرو کہتے ہیں ۔ فوجیوں کو حماس کو تباہ کرنے کے لیے اس نیٹ ورک کو تباہ کرنا ہوگا۔
اسرائیلی سیکیورٹی کے ایک ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ حماس کوشکست دینے کےلیےبنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کی تمام فوجی صلاحیتوں اور فوجی ساز و وسامان کو تباہ کیا جائے اور اس کے لیے ایک طویل کارروائی درکار ہو گی ۔
ذریعے نے کہا کہ بیشتر اہداف، افراد ، سازوسامان،اور لاجسٹکس زیر زمین واقع ہیں اور ممکن ہے کہ یرغمال افراد کو بھی زیر زمین رکھا جائے ۔ تو ان زیر زمین بنکروں تک پہنچنے سے پہلے زمینی راستہ ہموار کرنا ہو گا۔
SEE ALSO: فلسطینیوں پر ہر حملے کے بدلے میں ایک اسرائیلی یرغمالی کو ہلاک کرنے پر مجبور ہوں گے: حماسماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی حملے کی صورت میں بنکرز کو دھماکے سے اڑانے والے اسرائیل کے بموں اور اس کے ہائی ٹیک ’مرکاوا ٹینکوں‘ کو سرنگوں کے اس پیچیدہ نیٹ ورک کا سامنا ہوگا ۔ اسے ان جنگجوؤں کا سامنا ہو گا جو اس زیر زمین نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کر کے غائب ہوجائیں گے اور اسے اس اسلحہ خانے کا سامنا ہو گا جس میں روسی ساختہ" کورنیٹ اینٹی ٹینک "میزائل شامل ہیں ۔
اسرائیل سینکڑوں ریزرو فوجیوں کو ان فلسطینی جنگجوؤں سے مقابلے کےلیے متحرک کر رہا ہے جن کی تعداد کے بارے میں اسرائیل کی ’شن بیٹ‘ سیکیورٹی سروس کے ایک سابق عہدے دار نے کہا ہے کہ وہ 20 ہزار تک ہو سکتی ہے ۔
گنجان آباد غزہ میں شہریوں کی اموات میں اضافے کا خطرہ
غزہ میں ، زمین کی ایک ایسی پٹی ہے جہاں23 لاکھ لوگ رہتے ہیں، شہریوں کی اموات میں اضافے کا خطرہ بھی اسرائیل کے فوجی منصوبوں کو پیچیدہ بنا سکتا ہے ۔
حماس کے ترجمانوں نے رائٹرز کو کسی بھی فوجی کارروائی یا منصوبہ بندی کے بارے میں بتانے سے انکار کر دیا ہے ۔
اسرائیلی عہدے داروں نےبھی فوجی تفصیلات پر بات نہیں کی ہے ۔ وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ہم ایک زمینی حملے کی تیاری کرر ہے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ دہشت گرد انفرااسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچایا جائے تاکہ وہ اسرائیل کے لیے آئندہ کے لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ رہے ۔
SEE ALSO: غزہ میں بجلی کے بغیر خطرہ ہے کہ اسپتال مردہ خانے میں تبدیل ہو جائیں گے: ریڈ کراسغزہ کےرہائشی کیا کہتے ہیں؟
غزہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے سرحد کے ساتھ کی راہداریاں ہموار ہو گئی ہیں اور زمینی فورسز کے لیے ایک راستہ کھول سکتی ہیں ۔
لیکن فلسطینی عسکریت پسند دھڑوں کے عہدے دار ابو عبداللہ نے کہا ہے کہ غزہ کے جنگجو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طیارے کسی جنگ کو متعین نہیں کرتے ۔ بہت سے جنگجو جو کئی برسوں میں متعدد جنگی حربے سیکھ چکے ہیں ٹینکوں اور زمین پر فورسز کا سامنا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
2007 میں جب حماس نے مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی سے غزہ کا کنٹرول لیا تھا اس وقت سے اسرائیل دو بڑے زمینی حملے کر چکاہے ۔ ہر بار اسے اپنے فوجیوں کی پہلے سے زیادہ تعداد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ 2008 میں اس کے نو فوجی ہلاک ہوئے اور2014 میں 66۔
اس با ر حماس کوتیاری کےلیے زیادہ وقت ملا ہے اور اسے اب اسرائیل کے علاقائی دشمن،" ایران"ے آنے والی امداد کو راز میں نہیں رکھنا پڑے گا۔
SEE ALSO: اسرائیل میں جنگی کابینہ کی تشکیل؛ حماس کو کچلنے کا عزماسرائیلی عہدے دار کیا کہتے ہیں
اسرائیل کے ایک سابق سینیئر عہدے دار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہاکہ آپ کو غزہ میں پہلے سے زیادہ بہتر صلاحیتیں اور ہر جگہ انتہائی جدید ٹکنالوجی کا سامنا ہو گا۔
اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ پبلک کو اپنا مقصد حاصل کرنے کےلیے ایک طویل تنازعے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
منگل کے روز اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلینٹ نے سرحدی باڑ کے قریب فوجیوں سے کہا کہ ہم نےحملہ فضا سے شروع کیا ہے ، بعد میں ہم زمین سے بھی حملہ کریں گے ۔ان کا یہ بیان کسی بھی حملے کے واقع ہونے کے بارے میں ایک انتہائی مضبوط اشارہ ہے ۔
اسرائیل کی شن بیٹ سیکیورٹی سروس کے ایک سابق اعلیٰ عہدے دار اور اسرائیل کی رچمنڈ یونیورسٹی میں انسداد دہشت گردی کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ کے ایک فیلو، شیلوم بی حنان کا کہنا ہے کہ زمینی حملہ حماس کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جانی نقصان کا سامنا ہوگا ۔ ہم بہت تجربہ کار اور تربیت یافتہ جنگجوؤں کے ساتھ لڑنے جا رہے ہیں ۔ یہ ایک فیصلہ کن جیت ہونی چاہیے۔
( اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔)