اسرائیل کو بڑے پیمانے پر احتجاج کی ایک لہر کا سامنا ہے ۔مظاہرین ملک میں جمہوریت کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن اس جمہوریت نواز تحریک میں اسرائیل کی اس کھلم کھلا فوجی حکمرانی کی مخالفت کا کوئی واضح پیغام نہیں ہے جس کا لاکھوں فلسطینیوں کو سامنا ہے ۔
مبصرین کے مطابق ، یہ تضاد اسرائیلیوں کے اس نکتہ نظر کی عکاسی کرتا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ تنازعے کا کوئی حل نہیں اور ان کا معاملہ اسرائیل کے داخلی اختلافات سے ہٹ کر ہے ۔
فلسطینیوں سمیت احتجاجی تحریک کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جمہوری نظریات کے لئے ایسی 'سیلیکٹڈ' اور مخصوص نوعیت کی حمایت ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں رہنے والے اسرائیلی شہری، وہیں رہنے والے فلسطینیوں کی حقیقت سے کتنے 'ڈس کنیکٹڈ' یا لاتعلق ہیں۔
ایک فلسطینی مبصر ڈیانا بٹو کہتی ہیں کہ 'یہ ستم ظریفی ہے کہ وہ (اسرائیل کے شہری)جمہوریت کے لیے تو آواز اٹھا رہے ہیں اور احتجاج بھی کر رہے ہیں لیکن گزشتہ پچہتر برسوں سے فلسطینیوں کے لیے آمریت کا دور جاری ہے۔ مظاہرین کو یہ فکر تو ہے کہ ان کی اپنی مراعات اور حقوق کسی نہ کسی طور متاثر ہونے والے ہیں، لیکن وہ' اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقوں کی صورت حال سے 'تعلق نہیں بنا پا رہے'۔
'مین سٹریم اب جاگ رہا ہے'
سابق اسرائیلی فوجیوں کے ایک وسل بلوئر گروپ 'بریکنگ دا سائیلنس' کے سربراہ ایونر گوریہو احتجاج میں مسلسل شرکت کر رہے ہیں۔ وہ اس بات پر رنجیدہ محسوس کرتے ہیں کہ اسرائیل کی ریزرو فوج کے اراکین نے اسرائیل میں بقول ان کے 'جمہوریت کی توڑ پھوڑ' کے عمل کی مخالفت میں تو اپنی ڈیوٹی انجام دینے سے انکار کیا، مگر فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے کنٹرول پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے فوجیوں کا احتجاج ایک نیا قدم ہے، جو مستقبل میں (فلسطینی علاقوں پر )اسرائیل کے قبضے کے خلاف بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
'مین سٹریم اب جاگ رہا ہے'، انہوں نے کہا۔
لیکن فلسطینی اتنے پر امید نہیں۔
فلسطینیوں کے حقوق کے علمبردار گروپ 'الحق' کے سربراہ شوان جابرین کہتے ہیں کہ اسرائیل میں ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہرے 'سٹیٹس کو' یعنی حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنے کی کوشش ہیں، جس نے اب تک 'آکیوپیشن' یعنی قبضے کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
'آپ کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں؟ جمہوریت اور قبضہ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے'
اسرائیل میں 'جمہوریت بچاو' احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟
اسرائیل میں مظاہرین وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت کے ان اقدامات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جن کا مقصد سرکاری فیصلہ سازی اور قانون سازی پر عدالتی نگرانی کو محدود کرکے عدلیہ کو کمزور کرنا ہے۔احتجاجی تحریک کا کہنا ہے کہ عدالتی نظام کی تبدیلی کے خلاف اس کا محدود پیغام یہ ہے کہ اسرائیل میں اب تک کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ پائیدار احتجاجی تحریک چلائی جائے جو گزشتہ تیس ہفتوں سے ہزاروں افراد کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہی ہے۔
نیتن یاہو کی حکومت مغربی کنارے پر اسرائیل کی نئی آبادکاری کی حامی تحریک سے قریبی وابستگی رکھنے والی قوم پسند اور انتہائی مذہبی مؤقف رکھنے والی جماعتوں پر مشتمل ہے اور اس کا کہنا ہے کہ عدالتی نظام میں یہ تبدیلی منتخب قانون سازوں کے اختیار کو بحال کر دے گی اور بقول ان کے حد سے زیادہ مداخلت پسند عدالتی نظام کو کنٹرول میں لا سکے گی۔
ناقدین اس قانون سازی پر خاص طور پر اس لیے نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اسے انتہائی دائیں بازو اور قدامت پسند مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور یہ اسرائیل کے بنیادی جمہوری اصولوں اور اس کے چیک اینڈ بیلنس کے کمزور نظام پر ایک حملہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے شخصی آزادیوں اور خواتین، ایل جی بی ٹی کیو (LGBTQ) کمیونٹی اور اقلیتوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا راستہ کھل جائے گا جو اسرائیل کومطلق العنانی کی طرف گامزن کر دے گا۔
SEE ALSO: اسرائیل کے عدالتی نظام میں تبدیلیوں کے بل کو احتجاج کا سامنا کیوں؟فلسطینی ان مظاہروں سے لاتعلق کیوں؟
اسرائیل میں حالیہ احتجاجی تحریک کے مظاہرین کا تعلق معاشرے کے ایک وسیع حلقے سے ہے۔ وہ ’’جمہوریت یا بغاوت‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ وہ ’’اسرائیل ایک جمہوریت رہے گا‘‘ جیسی تحریروں کے کتبے اٹھائے چلتے ہیں اور مختلف تقریبات میں ملک کے آزادی کے اعلامیے کی ایک کاپی ساتھ رکھتے ہیں جو حقوق کی پاسداری کے ایک غیر سرکاری مسودہ قانون کے طور پر کام کرتی ہے۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ان زبردست مظاہروں کی وجوہات میں ان زمینوں پر اسرائیل کے چھپن سالہ قبضے پر کوئی بامعنی اختلاف شامل نہیں ہے جہاں فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ فلسطینی پرچم لہرانے والے کارکنوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے بھی ان مظاہروں میں اپنے مطالبات کے ساتھ حصہ لیا لیکن وہ زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکے۔
مبصرین کے مطابق، بعض صورتوں میں تو خود مظاہروں کے منتظمین نے بھی فلسطینی مظاہرین کو الگ تھلگ ہی رکھا کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل کے کنٹرول کا ذکر کرنے سے احتجاجی تحریک کو نقصان پہنچے گا۔
فلسطینی شہری اسرائیل کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں لیکن وہ احتجاج سے خود کو باہر ہی رکھے ہوئے ہیں کیونکہ مظاہروں کے دوران ان کے دعوے والے علاقے پر اسرائیل کے کنٹرول کے معاملے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کےکنٹرول مخالف ایک سینئیر کارکن ڈرور ایٹکس نے کہا کہ ’’یہ احتجاج یہودیوں کے لیے جمہوری مواقع کم کرنے کے خلاف ہے، لیکن اسرائیل میں بیشتر یہودیوں کو مغربی کنارے میں ایک 'اپارتھائیڈ' نسل پرستانہ حکومت کے نفاذ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
ڈرور ایٹکس اپنے خدشات کے باوجود احتجاج میں شرکت کر رہے ہیں۔ وہ اسرائیل کے کنٹرول سے متعلق امور کے تذکرے سے گریز کرنے کو ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا مقصد مختلف گروہوں کو اسرائیلی معاشرے کے لئے ایک بڑے خطرے کے خلاف متحد کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا بس چلے تو اسرائیل کے قبضے کے خلاف 'مجھ جیسے لوگ کبھی احتجاج میں حصہ نہ لے سکیں' ۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے احتجاج میں حصہ لینے والے متعدد رہنماؤں سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے یا توبات کرنے سے انکار کردیا یا حالیہ احتجاجی تحریک کے اس تضاد کے بارے میں سوالات کا جواب ہی نہیں دیا۔
مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کے اختیارات کی حدود کیا ہیں؟
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ جنگ میں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھال لیاتھا۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں فلسطینی اپنی آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل 2005 میں غزہ کی پٹی سے واپس ہوا اور مصر کے ساتھ مل کر اس علاقے کی ناکہ بندی کر دی۔ سات لاکھ سے زیادہ آباد کار اب مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں مقیم ہیں۔
مغربی کنارے میں رہائش پذیر فلسطینیوں کو محدود خود مختاری حاصل ہے لیکن اسرائیل ان کی زندگی کے بیشتر پہلؤوں کو کنٹرول کرتا ہے جس میں نقل و حرکت اور سفر، بعض علاقوں میں تعمیراتی اجازت نامے اور معیشت کے اہم حصے شامل ہیں ۔ اسرائیل کی فوج بھی اکثر فلسطینی علاقوں کو ہدف بناتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ عسکریت پسندی کو ناکام بنانے کی کوشش ہے۔
SEE ALSO: اسرائیلی فورسز کے مزید چھاپے، تین فلسطینی ہلاکمغربی کنارے میں دو سطحی قانونی نظام بھی موجود ہےجہاں اسرائیلی قانون کی بڑی حدود یہودی آبادکاروں پر لاگو ہوتی ہیں اور فلسطینی عوام اسرائیلی فوجی قانون کے تابع ہیں۔ فلسطینی اسرائیلی انتخابات میں ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ 1990 کی دہائی میں عبوری امن معاہدوں کے حصے کے طور پر قائم کی گئی ان کی اپنی قیادت نے فلسطینی انتخابات میں بار بار تاخیر کی ہے۔
مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے پاس اسرائیلی رہائشی اجازت نامہ ہوتا ہے اور انہیں کسی حد تک سماجی فوائد تک رسائی حاصل ہے۔ تاہم انہیں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا بھی سامنا ہے۔ وہ شہریت کے حصول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں لیکن متعدد افراد نظریاتی بنیادوں پر یا نوکر شاہی کے اقدامات کی وجہ سے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔
اسرائیل میں نسلی پرستی پر مبنی نظام رائج ہونے کے خدشات کیوں؟
ان متضاد حقائق نے حقوق کےعلمبردار گروپوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا ہے کہ وہاں نسل پرستی کے نظام نے جڑ پکڑ لی ہے۔ اسرائیل ایسے دعووں کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مغربی کنارہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کی قسمت کا تعین مذاکرات کے ذریعے کیا جانا چاہئیے۔ تاہم مذاکرات ایک لمبے عرصے سے تعطل کا شکار ہیں ۔
فلسطینیوں کے ساتھ برسوں کے ہلاکت خیز تنازعات کے بعدیہودیوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی کنٹرول کو سیکیورٹی کی پریشان کن صورتحال کا نا گزیر نتیجہ قرار دیتی ہے ۔کچھ یہودی ایسے بھی ہیں جو فلسطینیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ وہ امن کی فراخدلانہ پیشکشوں کو مسترد کرتے ہیں اور یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جسے فلسطینی بھی مسترد کرتے ہیں۔
عدلیہ اختیارات محدود کرنے کے حامی ہی فلسطینی علاقوں پر سخت اسرائیلی کنٹرول کے حامی ہیں؟
یروشلم کے تھنک ٹینک اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر فیلو امیچائی کوہن کا کہنا ہے کہ متعدد اسرائیلی مظاہرین اپنی جدوجہد اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے تضاد کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔
لیکن وہ اور بعض دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ مظاہرین اسرائیلی کنٹرول والے علاقوں کے معاملے کا بھی نوٹس لے رہے ہیں، جس سے اس موضوع پر شعور کی بیداری کا امکان پیدا ہو رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل میں عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے کے اہم حامی وہی لوگ ہیں جو فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے کنٹرول کو بڑھانے کے بھی خواہشمند ہیں۔
یہ مظاہرےایک ایسے وقت پر کئے جا رہے ہیں جب اسرائیل فلسطینی لڑائی میں تیزی آئی ہے ۔ اس دوران کٹر سوچ کے اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینی قصبوں پر حملہ کیا ہے خاص طور پر حوارہ میں کاروں اور گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا لیکن اسرائیلی سیکورٹی فورسز کا ردعمل بےحد معمولی رہا۔
اسرائیل میں جاری حالیہ احتجاج کے دوران ایک نعرہ یہ بھی دیکھا گیا کہ ’’آپ حوارہ میں کہاں تھے؟‘‘ جو احتجاج کے مظاہرین کے خلاف پولیس کی سخت کارروائی کی مخالفت میں سامنے آیا ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)