اسرائیل نے امریکی تنقید کے باوجود یروشلم کے عرب اکثریتی علاقے میں مزید دو عمارتوں کا قبضہ حاصل کرلیا ہے۔
یہ دونوں عمارتیں یروشلم کے اس علاقے میں موجود ہیں جسے فلسطینی اپنی مجوزہ ریاست کے دارالحکومت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
یہودی آبادکاروں نے اس سے قبل 30 ستمبر کو بھی سِلوان کے علاقے میں موجود ان دونوں عمارتوں کا قبضہ اس وقت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جب اسرائیلی وزیرِاعظم بیمنہی نیتن یاہو امریکہ کے دورے پر تھے۔
امریکہ نے اس سودے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر فوری طور پر روک دے۔
تاہم امریکی تنقید کے باوجود اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں نے پیر کو عمارتوں کا قبضہ سنبھال لیا ہے اور امکان ہے کہ جلد ہی یہودی آبادکار ان عمارتوں میں منتقل ہوجائیں گے۔
سِلوان کا یہ علاقہ مشرقی یروشلم کا حصہ ہے جسے فلسطینی اپنی مجوزہ ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں اس علاقے پر قبضہ کیا تھا جو دیگر فلسطینی مقبوضات کی طرح تاحال برقرار ہے۔
امریکہ اور فلسطینیوں کا موقف ہے کہ مجوزہ فلسطینی ریاست میں شامل علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر تنازع کے حل میں مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
لیکن اسرائیل پورے یروشلم کی ملکیت کا دعویدار ہے جسے بین الاقوامی برادری تسلیم نہیں کرتی۔
قدامت پسند یہودی اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے شہر کے عرب اکثریتی علاقوں – خصوصاً سلِوان – میں بھاری رقوم دے کر عمارتیں خرید رہے ہیں۔
مقامی فلسطینیوں کے احتجاج سے بچنے کے لیے یہودی آباد کار یہ عمارتیں عرب مڈل مین کے ذریعے خریدتے ہیں جو سودے کے بعد عمارتیں یہودیوں کے حوالے کرکے غائب ہوجاتے ہیں ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق سِلوان میں آباد 50 ہزار فلسطینیوں کے درمیان اب تک 500 یہودی بس چکے ہیں جو یا تو خود مسلح ہیں یا انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسرائیلی پولیس مستقل ان کی رہائش گاہوں کے باہر پہرا دیتی ہے۔
مغربی ذرائع ابلا غ کے مطابق سِلوان کی دونوں نئی عمارتوں کا سودا کئی ماہ پہلے ہی طے پاچکا تھا جس کے بعد سے یہ دونوں عمارتیں خالی پڑی تھیں۔
اتوار اور پیر کی درمیانی شب اچانک اسرائیلی سکیورٹی اہلکار دونوں عمارتوں میں داخل ہوگئے اور انہوں نے وہاں مورچے قائم کرلیے۔
'رائٹرز' کا کہنا ہے کہ عمارتوں کا قبضہ راتوں رات سنبھالنے کا مقصد مقامی باشندوں کے احتجاج سے بچنا ہے۔ تاہم علاقے کے عرب رہائشیوں نے یہودیوں کی علاقے میں منتقل پر سخت احتجاج کیا ہے۔
عمارتیں خریدنے والی اسرائیلی کمپنی کے وکیل ایوی سیگل نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ عمارتوں میں جلد ہی کم از کم آٹھ خاندان منتقل ہوجائیں گے۔
امریکہ نے تاحال اس پیش رفت پر کوئی باضابطہ ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔