سندھ حکومت کی جانب سے صوبے میں کم سے کم اُجرت 25 ہزار روپے کرنے کے اقدام کو تاجروں کی تنظیم ایمپلایئرز فیڈریشن آف پاکستان نے عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کا مؤقف ہے کہ کم از کم اجرت 17 ہزار 500 سے بڑھا کر 25 ہزار روپے مقرر کرنے کا اقدام غیر مناسب اور بلا جواز ہے اور اس کے لیے غیر آئینی طریقۂ کار اپنایا گیا۔
ایمپلایئرز فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری ذکی احمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس اقدام کو چیلنج کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس مقصد کے لیے منیمم ویج بورڈ کے آخری فیصلے کے برخلاف حکومت نے یکطرفہ طور پر صوبے میں کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کر دی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے یہ اضافہ 43 فی صد کے برابر ہے جب کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اس قدر اضافہ نہیں کیا اور اسے 20 فی صد تک محدود رکھا گیا۔
ذکی احمد خان کے مطابق اس فیصلے کے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں کیوں کہ یہ وہ تنخواہ ہے جو اس مزدور کو دی جاتی ہے جو کام کاج کا کوئی تجربہ نہیں رکھتا جب کہ قانون کے تحت اسکلڈ لیبر کی تنخواہ اس سے 20 فی صد زیادہ مقرر ہے۔ اس طرح ان کی تنخواہوں میں اضافہ اور پھر اس کے ساتھ فیکٹری، کارخانوں میں کام کرنے والے دفتری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافے سے اضافی بوجھ پڑے گا اور اس سے تیار شدہ مال مہنگا ہو گا جس سے اس کی خریداری میں بھی فرق پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کے ایک اجلاس میں حکومت، مزدور رہنما اور ایمپلایئرز فیڈریشن اس بات پر تیار ہو چکے تھے کہ کم سے کم اجرت 19500 روپے مقرر کی جائے گی لیکن حکومت نے بغیر کسی مشاورت کے اسے 25 ہزار روپے کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا اور اس میں قانونی طریقۂ کار کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 25 ہزار کم از کم اجرت کے علاوہ ورکرز پر دیگر متفرق اخراجات بھی آتے ہیں جس کی وجہ سے لاگت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس فیصلے سے سندھ حکومت نے کم از کم اُجرت 25 ہزار مقرر کر کے تفریق پیدا کی ہے۔ ذکی احمد خان کے خیال میں یہ فیصلہ مکمل طور پر سیاسی فوائد کے لیے کیا گیا ہے اور اس کا مقصد ووٹرز کو مطمئن کرنا ہے۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں صنعت کار اپنا سرمایہ اور صنعتیں دوسرے صوبوں یا بیرون ملک منتقل کرنے کی منصوبہ بندی پر مجبور ہوں گے۔ نتیجے میں ملک کی معیشت شدید متاثر ہو گی۔
"مہنگائی کے اس طوفان میں 25 ہزار بھی بہت کم ہیں"
واضح رہے کہ بجٹ تقریر میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جن کے پاس خزانے کا بھی قلم دان موجود ہے نے کم سے کم اُجرت 25 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ ہم نے کم سے کم تنخواہیں 25 ہزار روپے رکھی ہیں جو ان کے خیال میں اب بھی ناکافی بلکہ بہت کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس رفتار سے پچھلے تین برس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اس سے غریبوں کا جینا محال ہو چکا ہے اور اس کے ازالے کے لیے کم سے کم اُجرت میں اضافہ ناگزیر تھا۔
انہوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ پورے ملک میں کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی جانی چاہیے۔ کیوں کہ انہی مزدوروں کی وجہ سے ملک چل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومت نے نے یہ کڑوی گولی نگلی ہے۔
SEE ALSO: سندھ میں لاک ڈاؤن: سیاسی الزام تراشی کے شور میں متاثرہ طبقوں کی کون سنے گا؟"بین الاقوامی معیار کے مطابق اس وقت مزدور کی کم سے کم تنخواہ 35 ہزارروپے ہونی چاہیے"
دوسری جانب مزدور رہنما اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ریسرچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی کا کہنا ہے کہ ملک میں کم سے کم اجرت کا یہ قانون 1961 میں بنایا گیا تھا۔ لیکن شروع ہی سے لیبر قوانین پر عمل درآمد کم ہی رہا۔
اُن کے بقول 1968-1969 میں مزدوروں کی تحریک نے حکومت کو مجبور کیا کہ لیبر پالیسی بنائی جائے اور اس کے بعد کم سے کم اجرت کا دوبارہ سے تعین کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے مطابق کراچی میں 140 روپے ماہانہ اور دیگر شہروں کے لیے 120 روپے کم سے کم تنخواہ مقرر کی گئی۔
اُن کے بقول اس وقت ایک امریکی ڈالر 3 روپے کا تھا اور اب 163 روپے کا ہے۔ لیکن اس وقت پنجاب یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق مزدور کی کم سے کم تنخواہ لاہور کے لیے 275 روپے ہونا چاہیے تھیں۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مزدور کی تنخواہیں شروع ہی سے اس کی ضروریات کے حساب سے 50 فی صد سے بھی کم مقرر کی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کم سے کم تنخواہ کا تعین ایک الگ بات ہے اور اس پر عمل درآمد بالکل الگ بات ہے۔ لیکن عمل درآمد کے فقدان کی وجہ سے 80 فی صد ورکرز کو مقرر کردہ کم سے کم تنخواہیں بھی نہیں مل پاتیں اور وہ کم سے کم اجرت سے بھی کم پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت افرادی قوت کوئی سات کروڑ کے قریب ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر جہاں ملک کی افرادی قوت کے ڈیڑھ سے دو کروڑ افراد کام کرتا ہے وہاں دو سال قبل کے ایک سروے کے مطابق اوسط تنخواہ 13 ہزار روپے تھی۔ سندھ میں کم سے کم تنخواہ اس وقت 17 ہزار 500 مقرر تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر تو نہیں لیکن حقیقت میں خواتین کی تنخواہیں مردوں سے کم ہی ہوتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صنعتوں کے مالکان لوگوں کو کم سے کم تنخواہیں بھی دینے کو تیار نہیں۔
اس شعبے سے جڑے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک جانب صنعتوں، ملز مالکان اور کارخانوں میں حکومت کی جانب سے طے کردہ کم سے کم اجرت پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ مزدوروں کے حقوق سے عدم آگہی پر ان کا استحصال جاری ہے۔ دوسری جانب محکمہ محنت اور افرادی قوت کی جانب سے بھی اس بارے میں قانون پر عمل درآمد کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آتے جس سے مزدور طبقہ انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔
واضح رہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں اور صوبہ پنجاب میں کم از کم اجرت 20 ہزار روپے جب کہ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں 21 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔