معاون امریکی وزیر خارجہ ولیم برنز کا کہنا ہے کہ افغانستان نےاپنی سلامتی کہ ذمہ داریاں سنبھالنے، مفاہمت کا راستا اپنانے اور اپنےمعاشی مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کی طرف ایک ’جراٴتمندانہ‘ قدم آگے بڑھایا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات استنبول میں افغانستان پر ہونے والے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں کہی۔ ولیم برنز نے کہا کہ کانفرنس میں شریک ممالک افغانستان کی مدد کا عزم رکھتے ہیں۔
ولیم برنز نے استنبول اجلاس کو ’درست سمت کی طرف ایک اہم قدم‘ قرار دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس گروپ میں، خصوصی طور پر قریبی ہمسائے شامل ہیں، جِن کا مقصد ایک دوسرے کی معاونت کرنا ہے، نہ کہ کسی موجودہ تنظیموں کی جگہ لینا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اجلاس میں طے پانے والے سمجھوتے کی امریکہ مکمل حمایت کرتا ہے، جو کہ، اچھے ہمسایوں کے تعلقات کے حوالے سے 2002ء کے بعداب تک ہونے والی اہم ترین پیش رفت ہے۔
اُنھوں نے عبوری اورمفاہمت کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطے بھر سےافغانستان کی حمایت میں پہلا واضح بیان ہے جو سامنے آیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ،پہلی بار ایک ہی کمرے میں یک آواز ہوکر علاقے کے ممالک نےایک مزید مستحکم، خوشحال اور پُر امن افغانستان کی تعمیر کے لیے تعاون کے عزم کا اظہار کیا ہے، جس پر ایک مستحکم، خوشحال اور پر امن خطے کے حصول کا دارومدار ہے۔
اُنھوں نے شریک ملکوں کی طرف سے استنبول اجلاس میں سمجھوتے تک پہنچنے کے لیےکی گئی کوششوں کو سراہا ۔
اُنھوں نے کہا کہ افغانستان کےبہتر مستقبل کےلیےامریکہ اب بھی قربانیاں دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے یاد دلایا کہ گذشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں نو بہادر امریکیوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
درپیش چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے، ولیم برنز نے افغانستان کے عدم استحکام، انتہا پسندی اور سرحد کے دونوں اطراف پھیلی ہوئی شدت پسندی کی طرف دھیان مبذول کرایا۔
اُنھوں نے کہا کہ جب کہ بے انتہا اسمگلنگ اور بہت ہی کم تجارت ہورہی ہے، وہاں بے شمار لوگ غربت کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ باوجود اِس بات کے، اکٹھے مل کر مسائل کو حل کرنے کی جگہ، عمومی طور پر اب تک ان ملکوں نے ایسا طرز عمل اختیارکر رکھا تھا جس کے باعث ہمسایوں کے مسائل بد سے بدتر ہوتے رہے ہیں۔
معاون وزیر خارجہ نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ مسائل کے حل کے لیے بہتر طریقہ کار اپنایا جائے، جیسا کہ دوسرے علاقوں میں ہوا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ چالیس برس قبل جنوب مشرقی ایشیا بھی غربت میں جکڑا ہوا ، بے انتہا منقسم اور تنازعات میں گھرا ہوا خطہ تھا۔ لیکن، اُن ممالک نےمل کر اپنے اختلافات کا حل ڈھونڈا، اپنی منڈیاں ایک دوسرے کے لیے کھول دیں اور امن اور سلامتی کے حصول کے لیے علاقائی اداروں کو قائم کیا، جب کہ وہاں اب بھی بڑے چیلنجز باقی ہیں۔
تاہم، بہت زیادہ حد تک اب جنوب مشرقی ایشیا امن اور سلامتی کی راہ پر گامزن ہے ، اور یہ دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں تیزی کے ساتھ ترقی جاری ہے۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ اس علاقے میں بھی یہی کچھ ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے ملک اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے آج مل کر کام کرنے کا عزم کریں۔