|
غزہ جنگ کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والے احتجاج کا دائرہ امریکہ کے دیگر تعلیمی اداروں تک پھیل کر ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ طلبہ کے احتجاج کو آزادیٔ اظہار اور یہود مخالفت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ لیے طلبہ نے تعلیمی اداروں میں کیمپ لگا کر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے عمارتیں خالی کرنے کی ہدایات کے باوجود طلبہ نے اٹھنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
طلبہ کے احتجاج کے بعد امریکہ کے بعض تعلیمی اداروں میں ہائبرڈ طرز تعلیم کا آغاز کر دیا گیا ہے، یعنی طلبہ اب گھروں پر ہی بیٹھ کر تعلیمی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پولیس نے احتجاج کرنے والے سینکڑوں طلبہ کو گرفتار کیا ہے جن میں سے کئی کو عدالتی سمن بھی جاری ہو چکے ہیں۔
طلبہ کا مطالبہ ہے کہ غزہ جنگ فوری ختم کی جائے اور اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی روکی جائے۔
کیلی فورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے عمارت پر قبضہ کرنے کے بعد اس کے کیمپس بدھ سے بند کر دیے جائیں گے جب کہ تمام کلاسز آن لائن لی جائیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ریاست میساچوسٹس کی ہارورڈ یونیورسٹی نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں غیر متعلقہ افراد کا کیمپس میں داخلے پر پابندی سمیت مختلف مقامات پر بغیر اجازت بیٹھنے یا خیمے لگانے پر پابندی شامل ہے۔
ادب کے پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ کرسچن ڈیلین کا کہنا ہے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہارورڈ یونیورسٹی انتظامیہ مظاہروں کو کیوں روک رہی ہے۔ لیکن طلبہ کے لیے ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔
ان کے بقول "ہم یونیورسٹی کیمپس جیسی جگہوں کو مظاہروں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جہاں ہماری آواز سنی جائے۔"
امریکن سول لبرٹیز یونین سے وابستہ وکیل بین وزنر کا کہنا ہے کہ کالج میں یونین رہنماؤں کو اس وقت سخت مشکل کا سامنا ہے کیوں کہ ان پر نہ صرف یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے وہ یہ یقینی بنائیں کہ لوگ اپنے خیالات کا اظہار کریں بلکہ طلبہ کو ہراسانی، دھمکیوں اور خوف سے تحفظ فراہم کرنا بھی ان کی ذمے داری ہے۔
احتجاج کا دائرہ کس طرح وسیع ہوا؟
غزہ میں جنگ بندی کے لیے کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ گزشتہ کئی ماہ سے احتجاج کر رہے تھے جس میں شدت اس وقت آئی جب گزشتہ ہفتے یونیورسٹی کی صدر مینوش شفیق نے پولیس سے کیمپس میں موجود مظاہرین کے خیموں کو ہٹانے کی اپیل کی۔
پولیس نے 18 اپریل کو کارروائی کرتے ہوئے 100 سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیا جس کے بعد احتجاج کا دائرہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی پھیل گیا۔
کولمبیا یونیورسٹی کی صدر مینوش شفیق نے پیر کو اسکول کمیونٹی کو ایک پیغام میں کہا کہ کیمپس میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر انہیں بہت دکھ ہے، کیوں کہ بعض یہودی طلبہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر تنقید یہود مخالفت میں تبدیل ہو چکی ہے۔
SEE ALSO: بائیڈن کی کولمبیا یونیورسٹی میں یہود مخالفت کی مذمت، فلسطینی حامی مظاہروں کے بعد کلاسیں منسوخامریکی ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن بدھ کو کولمبیا یونیورسٹی میں یہودی طلبہ سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ ایک پریس کانفرنس کے دوران تعلیمی اداروں میں یہود مخالفت سے متعلق بات بھی کریں گے۔
نیویارک سول لبرٹیز یونین نے منگل کو جاری ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ یونیورسٹیاں مظاہروں کو ختم کرانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بلانے میں جلد بازی کر رہی ہیں۔
گروپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈونا لبرمین نے کہا ہے کہ عہدیداروں کو اسرائیل پر ہونے والی تنقید کو یہود دشمنی یا مخالف سیاسی بیانیے کو خاموش کرنے کے لیے نفرت آمیز بیانات سے نہیں جوڑنا چاہیے۔
'اس وقت جامع مباحثے کی ضرورت ہے'
یونیورسٹی آف مشی گن کے طالب علم لیو اوربچ کہتے ہیں کہ اگر ہم تعلیمی اداروں میں متنوع کمیونٹی کا قیام چاہتے ہیں تو مختلف گروہوں کے درمیان جامع مباحثے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول اس وقت کوئی ڈائیلاگ نہیں ہو رہے ہیں۔
میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے وابستہ فزکس کی طالبہ ہنا دائیدبانی کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا مظاہرین اس سے متاثر ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ "اس وقت کیمپس کے کئی پروفیسر اپنی تحقیق کے لیے اسرائیل کی وزارتِ دفاع سے براہِ راست فنڈنگ لے رہے ہیں۔ ہمارا یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ ریسرچ تعلقات کو منقطع کیا جائے۔"
قانون کے طالبِ علم ملک افانے کے مطابق کیلی فورنیا یونیورسٹی میں منگل کے روز تقریباً 30 خیمے لگا کر احتجاج شروع کیا گیا ہے اور یہ لوگ کولمبیا کے مظاہرین سے متاثر ہیں۔ ان کے بقول کولمبیا کے احتجاج کو ہم طلبہ کی تحریک کا دل تصور کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ میں چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
جنگ کا آغاز گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
(اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔)