بلوچستان کے مسئلےکےبارے میں اختر مینگل نے کہا کہ، بقول اُن کے، نیت اگر صاف ہوتی تو مسائل انبار کی شکل اختیار نہ کرتے۔ لیکن، ’بعض قوتوں نے اِن مسائل کو الجھانے کی کوشش کی اور حقیقی نمائندوں کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کی‘
واشنگٹن —
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)کے راہنما اختر مینگل نے، جو طویل غیر حاضری کے بعد ابھی پاکستان لوٹے ہیں، کہا ہے کہ اُن کی پارٹی کی سنٹرل کمیٹی اپنے اجلاس میں ملک کےسیاسی منظرنامے کا جائزہ لے گی اور دیکھے گی کہ الیکشن کا ماحول کیا ہے۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اِسی پسِ منظر میں پاکستان آئے ہیں جِس کے دوران یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اُن کی پارٹی الیکشن میں شریک ہوسکتی ہے یا نہیں۔
اختر مینگل نے بتایا کہ اُن کی پارٹی کےارکان مختلف علاقوں کےبارے میں اپنا تجزیہ پیش کریں گے، اُس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جاسکے گا۔
اگر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ ہوتا ہے تو مختلف سیاسی گروپوں سے نشستوں کی adjustment پر بھی تبادلہٴ خیال ہوگا۔
بلوچستان کے مسئلےکے بارے میں اختر مینگل نے کہا کہ، بقول اُن کے، نیت اگر صاف ہوتی تو مسائل انبار کی شکل اختیار نہیں کرتے، لیکن اُن کے اپنے الفاظ میں، بعض قوتوں نے ان مسائل کو الجھانے کی کوشش کی اور حقیقی نمائندوں کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کی۔
اُنھوں نے اِس جانب توجہ دلائی کہ جب تک سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا، مسائل حل نہیں ہوں گے۔
اختر مینگل، جو بلوچستان کے بارے میں اپنے قوم پرست نقطہٴ نظر کی وجہ سےجانے جاتے ہیں، دعویٰ کیا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی ایک جمہوری اور پارلیمانی پارٹی رہی ہے اور اُس نے ہمیشہ بلوچستان کےعوام کےجائز حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ الیکشن کا زمانہ ہے اور اسی وجہ سے وہ یہاں لوٹے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہٴ بلوچستان میں ایک عرصے سے بے چینی چل رہی ہے جسے بعض مبصرین کم تر سطح کی بغاوت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
قوم پرست بلوچ راہنما اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں صوبے میں بہت سے لوگوں کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں اور اِس سلسلے میں ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
دوسری جانب، عسکریت پسند بلوچ قوم پرست گروپ سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے مختلف طبقوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں، جِن میں غیر بلوچ شہری خاص طور پر شامل ہیں۔
اختر مینگل کہتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے جسے، بقول اُن کے، بندوق کے غرور سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کےلوگ 65سال سے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
اختر مینگل نے اِس جانب بھی توجہ دلائی کہ سپریم کورٹ میں اُنھوں نے جو چھ نکات پیش کئے تھے، اگر وہ تسلیم کرلیےجائیں، تو اُن کے اپنے الفاظ میں، جائز سیاسی مسائل پر بات ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر اِس سے پہلے سیاسی سطح پر مذاکرات کی کئی کوششیں کی گئی ہیں اور اِس سلسلے میں صوبے کی ترقی کے لیے ایک خصوصی پیکج کا بھی اعلان کیا گیا، لیکن وہ سب اقدامات اب تک سودمند نہیں رہے۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے کلک کیجئیے:
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اِسی پسِ منظر میں پاکستان آئے ہیں جِس کے دوران یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اُن کی پارٹی الیکشن میں شریک ہوسکتی ہے یا نہیں۔
اختر مینگل نے بتایا کہ اُن کی پارٹی کےارکان مختلف علاقوں کےبارے میں اپنا تجزیہ پیش کریں گے، اُس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جاسکے گا۔
اگر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ ہوتا ہے تو مختلف سیاسی گروپوں سے نشستوں کی adjustment پر بھی تبادلہٴ خیال ہوگا۔
بلوچستان کے مسئلےکے بارے میں اختر مینگل نے کہا کہ، بقول اُن کے، نیت اگر صاف ہوتی تو مسائل انبار کی شکل اختیار نہیں کرتے، لیکن اُن کے اپنے الفاظ میں، بعض قوتوں نے ان مسائل کو الجھانے کی کوشش کی اور حقیقی نمائندوں کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کی۔
اُنھوں نے اِس جانب توجہ دلائی کہ جب تک سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا، مسائل حل نہیں ہوں گے۔
اختر مینگل، جو بلوچستان کے بارے میں اپنے قوم پرست نقطہٴ نظر کی وجہ سےجانے جاتے ہیں، دعویٰ کیا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی ایک جمہوری اور پارلیمانی پارٹی رہی ہے اور اُس نے ہمیشہ بلوچستان کےعوام کےجائز حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ الیکشن کا زمانہ ہے اور اسی وجہ سے وہ یہاں لوٹے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہٴ بلوچستان میں ایک عرصے سے بے چینی چل رہی ہے جسے بعض مبصرین کم تر سطح کی بغاوت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
قوم پرست بلوچ راہنما اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں صوبے میں بہت سے لوگوں کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں اور اِس سلسلے میں ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
دوسری جانب، عسکریت پسند بلوچ قوم پرست گروپ سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے مختلف طبقوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں، جِن میں غیر بلوچ شہری خاص طور پر شامل ہیں۔
اختر مینگل کہتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے جسے، بقول اُن کے، بندوق کے غرور سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کےلوگ 65سال سے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
اختر مینگل نے اِس جانب بھی توجہ دلائی کہ سپریم کورٹ میں اُنھوں نے جو چھ نکات پیش کئے تھے، اگر وہ تسلیم کرلیےجائیں، تو اُن کے اپنے الفاظ میں، جائز سیاسی مسائل پر بات ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر اِس سے پہلے سیاسی سطح پر مذاکرات کی کئی کوششیں کی گئی ہیں اور اِس سلسلے میں صوبے کی ترقی کے لیے ایک خصوصی پیکج کا بھی اعلان کیا گیا، لیکن وہ سب اقدامات اب تک سودمند نہیں رہے۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5