بلوچستان میں گورنر راج کی آئینی مدت ختم ہو گئی ہے، جس کے بعد قانوناً صوبے میں وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کی حکومت بحال ہو چکی ہے۔ گورنر راج 13جنوری کو لگایا گیا تھا۔ قانونی طور پر گورنر راج زیادہ سے زیادہ دو ماہ کے لئے نافذ کیا جاتا ہے جس کی توثیق مذکورہ مدت کے اندر اندر اسمبلی سے کرانا ضروری ہوتی ہے۔
کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ پر 10 جنوری کو یکے بعد دیگرے دو خود کش حملوں میں 90 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جس کے بعد سخت سردی اور بارش کے باوجود لواحقین کی نمائندہ تنظیموں نے علمدار روڈ پر 86 لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک گیر سطح پر احتجاج کی شکل اختیار کر گیا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ دھماکوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کیلئے کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جائے، سوئلین حکومت ناکام ہو چکی ہے، گورنر راج کا نفاذ کیا جائے۔ 13جنوری کی رات وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی قیادت میں ایک وفد نے کوئٹہ میں متاثرین سے مذاکرات کیے اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ جہاں ضرورت ہوگی فوج بلائی جائے گی۔ ساتھ ہی، وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
چودہ جنوری کو صدر زرداری نے اس حوالے سے صدارتی فرمان جاری کیا تھا اور اڑسٹھ گھنٹے بعد دھرنا ختم ہوا، اور صوبے کے انتظامی امور دو ماہ کیلئے گورنر بلوچستان ذوالفقار علی مگسی کو سونپ دیئے گئے تھے۔ دوماہ میں گورنر راج کی پارلیمنٹ سے توثیق نہیں کروائی گئی جس کے باعث 13 مارچ کو رات بارہ بجے اسلم رئیسانی کی حکومت، آئینی طور پر، بحال ہو گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس حوالے سے صدر اور وزیراعظم کے درمیان بدھ کو اہم ملاقات بھی ہوئی جس میں وزیرقانون فاروق ایچ نائیک بھی شامل تھے۔ ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں دوبارہ گورنر راج کا نفاذ کردیا جائے گا۔ تاہم، اس حوالے سے تاحال کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا۔
کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ پر 10 جنوری کو یکے بعد دیگرے دو خود کش حملوں میں 90 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جس کے بعد سخت سردی اور بارش کے باوجود لواحقین کی نمائندہ تنظیموں نے علمدار روڈ پر 86 لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک گیر سطح پر احتجاج کی شکل اختیار کر گیا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ دھماکوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کیلئے کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جائے، سوئلین حکومت ناکام ہو چکی ہے، گورنر راج کا نفاذ کیا جائے۔ 13جنوری کی رات وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی قیادت میں ایک وفد نے کوئٹہ میں متاثرین سے مذاکرات کیے اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ جہاں ضرورت ہوگی فوج بلائی جائے گی۔ ساتھ ہی، وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
چودہ جنوری کو صدر زرداری نے اس حوالے سے صدارتی فرمان جاری کیا تھا اور اڑسٹھ گھنٹے بعد دھرنا ختم ہوا، اور صوبے کے انتظامی امور دو ماہ کیلئے گورنر بلوچستان ذوالفقار علی مگسی کو سونپ دیئے گئے تھے۔ دوماہ میں گورنر راج کی پارلیمنٹ سے توثیق نہیں کروائی گئی جس کے باعث 13 مارچ کو رات بارہ بجے اسلم رئیسانی کی حکومت، آئینی طور پر، بحال ہو گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس حوالے سے صدر اور وزیراعظم کے درمیان بدھ کو اہم ملاقات بھی ہوئی جس میں وزیرقانون فاروق ایچ نائیک بھی شامل تھے۔ ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں دوبارہ گورنر راج کا نفاذ کردیا جائے گا۔ تاہم، اس حوالے سے تاحال کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا۔