تجزیہ کار کرسٹین فیئر نے مزید کہا کہ، ’میرے لیے اِس کی اہمیت یہ ہے کہ جان کیری نے پاکستان کے نئے وزیر اعظم اور نئے صدر سے ملاقات کی۔ تاہم، اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے‘
واشنگٹن —
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس وقت پاکستان کے دو روزہ دورے پر ہیں جہاں اُنھوں نے وزیر اعظم میاں نواز شریف سمیت دیگر اعلیٰ رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
ایک طرف اگر امریکہ میں بہت سے تجزیہ نگار اس دورے کو موجودہ علاقائی پس منظر میں اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں، تو دوسری جانب ’رینڈ کارپوریشن‘ سے منسلک سینئر تجزیہ نگار کرسٹین فیئر کی نظر میں جان کیری کے اس دورے کی اہمیت، بقول اُن کے، ’محض پاکستان کے نئے حکمرانوں سے ملاقات تک ہی محدود ہے‘۔
اُن کے الفاظ میں، میرے لیے اس کی اہمیت یہ ہے کہ جان کیری نے پاکستان کے نئے وزیر اعظم اور نئے صدر سے ملاقات کی۔ تاہم، اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین مسائل بہت گہرے ہیں اور امریکہ طالبان، جماعت الدعویٰ اور لشکر طیبہ کے ساتھ پاکستان کے مبینہ روابط جیسے مسائل سے متعلق پاکستان پر دباؤ ڈالے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ موجودہ علاقائی پس منظر میں دونوں ممالک کے ایک دوسرے سے کیا توقعات ہیں، کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام ِامن کی کوششوں میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے اور جان کیری پاکستان سے مخلصانہ کردار ادا کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، پاکستان آئی ایم ایف کی جانب واپس جانے سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں امریکہ کا تعاون چاہے گا اور ساتھ ہی دونوں ملکوں کے مابین ایک اور اہم مسئلہ ڈرون کا ہے۔ پاکستان چاہے گا کہ ڈرون حملوں کو روک دیا جائے۔ لیکن، مجھے اس کی توقع نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بنیادی ڈھانچہ وہی ہے، صرف شخصیات تبدیل ہوئی ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک ڈائلاگ کے پھر سے شروع کرنے کے بارے میں کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہ ڈائلاگ کبھی کامیاب نہیں ہوئے، اس لیے اُنھیں اس دفعہ بھی، اُن کے الفاظ میں، ’کوئی امید نہیں ہے‘۔
اُن کے بقول، ماضی میں اِن ڈائلاگ میں دونوں ملکوں نے اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر ہی بات کی۔ اسٹریٹجک ڈائلاگ تب کیے جاتے ہیں جب اسٹریٹجک مفادات ایک جیسے ہوں اور ایک مشترکہ نقطہٴنظر سامنے ہو اور اس وقت ایسا نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون حملے مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ ڈرون کے بارےمیں کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے حکمراں، بقول اُن کے، اپنے عوام سے حقیقت چھپا رہے ہیں۔
اسلام آباد سے ملنے والی خبروں کے مطابق، امریکی وزیر خارجہ نے اعلیٰ سرکاری عہدے داروں سے بات چیت کے بعد کہا ہے کہ دونوں ممالک اُن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، جن کا اُنھیں سامنا ہے، ’مؤثر طریقوں‘ پر غور کررہے ہیں۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے اس بات کا عزم کر رکھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’مکمل شراکت داری‘ کی شکل دی جائے گی اور سکیورٹی کے معاملات پر دونوں ملک اعلیٰ سطح کے مذاکرات پھر سے شروع کریں گے۔
بعد میں، پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن سے ایک انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ نے اشارہ دیا کہ پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکہ کے ڈرون حملے ’بہت جلد‘ بند ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ عسکریت پسندی کا خطرہ کم ہو جائے۔
اِن حملوں میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں واشنگٹن کے مطابق، پناہ لیے ہوئے طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں سے افغانستان اور مغربی ملکوں کو خطرہ ہے۔
پاکستان اِن حملوں کی یہ کہتے ہوئے مزمت کرتا ہے کہ یہ حملے اُس کے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی ہیں۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
ایک طرف اگر امریکہ میں بہت سے تجزیہ نگار اس دورے کو موجودہ علاقائی پس منظر میں اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں، تو دوسری جانب ’رینڈ کارپوریشن‘ سے منسلک سینئر تجزیہ نگار کرسٹین فیئر کی نظر میں جان کیری کے اس دورے کی اہمیت، بقول اُن کے، ’محض پاکستان کے نئے حکمرانوں سے ملاقات تک ہی محدود ہے‘۔
اُن کے الفاظ میں، میرے لیے اس کی اہمیت یہ ہے کہ جان کیری نے پاکستان کے نئے وزیر اعظم اور نئے صدر سے ملاقات کی۔ تاہم، اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین مسائل بہت گہرے ہیں اور امریکہ طالبان، جماعت الدعویٰ اور لشکر طیبہ کے ساتھ پاکستان کے مبینہ روابط جیسے مسائل سے متعلق پاکستان پر دباؤ ڈالے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ موجودہ علاقائی پس منظر میں دونوں ممالک کے ایک دوسرے سے کیا توقعات ہیں، کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام ِامن کی کوششوں میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے اور جان کیری پاکستان سے مخلصانہ کردار ادا کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، پاکستان آئی ایم ایف کی جانب واپس جانے سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں امریکہ کا تعاون چاہے گا اور ساتھ ہی دونوں ملکوں کے مابین ایک اور اہم مسئلہ ڈرون کا ہے۔ پاکستان چاہے گا کہ ڈرون حملوں کو روک دیا جائے۔ لیکن، مجھے اس کی توقع نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بنیادی ڈھانچہ وہی ہے، صرف شخصیات تبدیل ہوئی ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک ڈائلاگ کے پھر سے شروع کرنے کے بارے میں کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہ ڈائلاگ کبھی کامیاب نہیں ہوئے، اس لیے اُنھیں اس دفعہ بھی، اُن کے الفاظ میں، ’کوئی امید نہیں ہے‘۔
اُن کے بقول، ماضی میں اِن ڈائلاگ میں دونوں ملکوں نے اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر ہی بات کی۔ اسٹریٹجک ڈائلاگ تب کیے جاتے ہیں جب اسٹریٹجک مفادات ایک جیسے ہوں اور ایک مشترکہ نقطہٴنظر سامنے ہو اور اس وقت ایسا نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون حملے مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ ڈرون کے بارےمیں کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے حکمراں، بقول اُن کے، اپنے عوام سے حقیقت چھپا رہے ہیں۔
اسلام آباد سے ملنے والی خبروں کے مطابق، امریکی وزیر خارجہ نے اعلیٰ سرکاری عہدے داروں سے بات چیت کے بعد کہا ہے کہ دونوں ممالک اُن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، جن کا اُنھیں سامنا ہے، ’مؤثر طریقوں‘ پر غور کررہے ہیں۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے اس بات کا عزم کر رکھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’مکمل شراکت داری‘ کی شکل دی جائے گی اور سکیورٹی کے معاملات پر دونوں ملک اعلیٰ سطح کے مذاکرات پھر سے شروع کریں گے۔
بعد میں، پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن سے ایک انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ نے اشارہ دیا کہ پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکہ کے ڈرون حملے ’بہت جلد‘ بند ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ عسکریت پسندی کا خطرہ کم ہو جائے۔
اِن حملوں میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں واشنگٹن کے مطابق، پناہ لیے ہوئے طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں سے افغانستان اور مغربی ملکوں کو خطرہ ہے۔
پاکستان اِن حملوں کی یہ کہتے ہوئے مزمت کرتا ہے کہ یہ حملے اُس کے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی ہیں۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5