کم عمر ہندو لڑکی سے شادی کے جرم میں مقدمہ درج

کراچی میں مہک کماری کے حق میں احتجاجی مظاہرہ۔

جیکب آباد کی سول عدالت نے ہندو لڑکی کو مسلمان بنا کر شادی کرنے والے شخص کے خلاف کم عمر لڑکی سے شادی کرنے کے جرم میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔

ادھر فیصلے پر اسلامی مذہبی جماعتوں اور ہندو کمیونٹی کے رہنماؤں نے تو اطمینان کا اظہار کیا ہے، لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق، فیصلے میں سقم موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فیصلے میں کم عمر کی شادی کے جرم پر قانونی کارروائی کا حکم تو دیا گیا، لیکن جبری تبدیلی مذہب پر کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔

لڑکی کے مبینہ اغوا پر عدالتی فیصلہ کیا ہے؟

جیکب آباد میں ہندو لڑکی مہک کماری کو مبینہ طور پر اغوا، انھیں غیر قانونی طور پر قید رکھنے اور مبینہ طور پر زبردستی مسلمان کرنے کے خلاف دائر لڑکی کے والد وجے کمار کی درخواست پر سول عدالت نے منگل کو فیصلہ سنایا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ میڈیکل رپورٹس کے مطابق، لڑکی 18 سال سے کم عمر کی ہے اور چونکہ صوبے میں 18 سال سے کم عمر کی شادی کرنا جرم ہے اس لئے لڑکی سے شادی رچانے والے علی رضا سولنگی اور اس شادی میں معاونت کرنے والوں کے خلاف کم عمر کی شادی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے۔

مہک کماری کو، جن کا نام اسلام قبول کرنے کے بعد علیزہ رکھا گیا تھا، اس وقت تک عارضی طور پر چائلڈ پروٹیکشن یونٹ بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انھیں کم عمری کی شادی کے ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش نہ کر دیا جائے۔ عدالت نے اپنے حکم میں پولیس کو لڑکی کی حفاظت یقینی بنانے کا بھی حکم دیا ہے۔

ہندو کمیونٹی کا ردعمل کیا ہے؟

فیصلے پر ہندو کمیونٹی کی جانب سے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی مسلم لیگ ن کے رہنما کھیل داس کوہستانی نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلے سے انصاف کی راہ ہموار ہوئی ہے اور مظلوم خاندان کو اس کا حق مل سکے گا۔ انہوں ںے کہا کہ اسلام میں کسی پر بھی زبردستی نہیں مسلط نہیں کی جا سکتی، جبکہ خود دین اسلام غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے۔

انہوں نے مذہبی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ ایسے معاملات پر برداشت اور تحمل سے کام لیں تو یہ مسائل نہیں بڑھیں گے۔ تاہم، ان کے مطابق، سندھ حکومت چائلڈ میریج ایکٹ میں پائے جانے والے بعض سقم دور کرے۔

مذہبی جماعتوں کا مؤقف:

جے یو آئی سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات مولانا سمیع سواتی نے فیصلے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انکی جماعت عدالتی فیصلے کا مکمل احترام کرتی ہے اور اگر ہمیں عدالتی فیصلے پر کوئی اعتراض ہوا تو ان کی جماعت اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ لیکن ان کے بھی خیال میں چائلڈ میریج ایکٹ میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

سمیع سواتی کا کہنا ہے کہ صوبے میں اپنی مرضی سے شادی کرنے والی لڑکیاں جن کا تعلق کسی بھی مذہب یا کمیونٹی سے ہو، ان پر قانون کا یکساں اطلاق کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ مسلمان خواتین کی مرضی سے نکاح کو تو تسلیم کر لیا جائے جبکہ غیر مسلم خواتین کی جانب سے مرضی سے شادی اور تبدیلی مذہب کو مذہب کے ساتھ جوڑ کر اس پر بلاجواز تنقید اور ایشو بنایا جائے۔ جمعیت علمائے اسلام اس کے سراسر خلاف ہے۔

جیکب آباد میں اس کی کیس کی سماعت پر جمعیت علمائے اسلام کے مقامی رہنماؤں نے لڑکی کو اس کے ہندو والدین کے حوالے کرنے پر احتجاج اور عدالت کے گھیراؤ کا اعلان کیا تھا، جس کے باعث منگل کے روز جیکب آباد میں فیصلہ سنائے جانے پر انتہائی سخت حفاظتی انتظامات دیکھے گئے تھے اور کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے شہر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کی رائے کیا ہے؟

ہندو اور مسلم کمیونٹی کے برخلاف انسانی حقوق کے کارکن فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے میں سقم موجود ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے وائس چئیرپرسن اسد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ چائلڈ میریج ایکٹ کی خلاف ورزی پر ملزمان پر مقدمہ کے اندراج کا حکم تو خوش آئندہ ہے مگر لڑکی کو جبری طور پر مسلمان بنائے جانے پر کوئی حکم نہیں دیا گیا اور ان کے خیال میں مسئلے کی جڑ یہی معاملہ ہے۔

اسد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ لڑکی کو بہلا پھسلا کر شادی کرنے کے علاوہ ان کا مذہب بھی تبدیل کیا گیا جس پر عدالتی فیصلے میں کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی اس بارے میں کچھ کرنے کی جرات ہے۔ بقول ان کے، مذہبی انتہا پسند لوگ ڈنڈے لے کر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے واضح الفاظ میں یہ دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر لڑکی دوبارہ ہندو ہوتی ہے تو وہ اسلامی قانون کی نگاہ سے مرتد ہوجائے گی اور ان کی سزا موت ہے، اس لئے انھیں قتل کر دیا جائے گا۔

اسد قبال بٹ کے مطابق، قتل کی اس کھلی اور سنگین دھمکی پر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا نہ ہی عدالت نے بازپرس کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری عدالتیں اور سارا نظام ایسے مذہبی انتہا پسند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں جن سے ججز ڈر کھاتے ہیں۔

ادھر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبے میں جبری تبدیلی مذہب سے متعلق کوئی قانون موجود نہ ہونے کے باعث اسے سرے سے جرم تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اور یہی صورتحال پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی ہے، جبکہ دوسری جانب عدالت میں ضابطہ فوجداری کے تحت ایک ہی ملزمہ کے دو بار بیانات ریکارڈ کرنے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ مہک کماری نے، جن کا نیا نام علیزہ رکھا گیا تھا، اپنے پہلے بیان میں اپنے والدین کی جانب سے ایف آئی آر میں عائد اس الزام کی نفی کی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف اسلام قبول کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور علی رضا سولنگی کے ساتھ شادی کی جبکہ چند روز کے بعد ملزمہ نے دوبارہ اپنا بیان عدالت میں ریکارڈ کرایا جس میں انھوں نے اپنے پہلے بیان کو جذباتی قرار دیتے ہوئے والدین کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔