اسلام آباد ہائی کورٹ نے سندھ سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی دو ہندو بہنوں کو وزارتِ انسانی حقوق کی تحویل میں دیتے ہوئے وفاق سے وزیرِ اعظم کے حکم پر کی جانے والی معاملے کی تحقیقات کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے منگل کو دونوں بہنوں کی طرف سے دائر تحفظ کی درخواست کی سماعت کی۔
دونوں بہنوں کی طرف دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے کسی جبر کے بغیر اسلام قبول کر کے اپنی پسند سے شادی کی ہے اور انہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی اجازت دی جائے۔
سماعت کے دوران ارینا اور روینا کے وکیل عمیر بلوچ ایڈوکیٹ نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ دونوں بہنوں نے قانون کے مطابق اسلام قبول کیا ہے۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ دونوں لڑکیوں کی حفاظت یقینی بنانے کا حکم دیا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ مقدمہ حساس نوعیت کا ہے کیوں کہ کچھ قوتیں پاکستان کے اقلیتوں کے حوالے سے تاثر کو خراب کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق مکمل طور پر محفوظ ہیں اور آئینِ پاکستان اقلیتوں کے حقوق کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریماکس میں یہ بھی کہا کہ اسلام میں فتحِ مکہ اور خطبۂ حجتہ الوداع اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے دستور کی سند رکھتے ہیں۔
عدالت نے انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کو معاملے کی خود نگرانی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ڈسٹرکٹ سیشن جج کو ہندو بہنوں کے لیے گارڈین جج مقرر کرنے کا حکم دیا۔
دونوں بہنوں کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت لڑکیوں کو سندھ نہ بھیجنے کا حکم دے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ لڑکیوں کو واپس لے جا کر کاروکاری کی رسم کے تحت قتل نہ کردیا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ معاملہ اس عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی اجازت کے بغیر لڑکیاں اسلام آباد سے باہر نہیں جاسکتیں۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو صوبۂ سندھ کے چیف سیکریٹری سے اس معاملے کی رپورٹ منگوانے کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت دو اپریل تک ملتوی کردی۔
'اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے'
عدالت کے باہر صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے دونوں بہنوں نے کہا کہ وہ بالغ ہیں اور ان کی عمریں 18 اور 20 سال ہیں۔ دونوں بہنوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور ان کے ساتھ کسی نے زور زبردستی نہیں کی۔
دونوں بہنوں کے وکیل نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ لڑکیوں کی عمر سے متعلق انہوں نے اس مدرسے کا سرٹیفکیٹ دیکھا ہے جہاں ان کا نکاح ہوا تھا۔
وکیل نے بتایا کہ لڑکیوں کے پاس اس سرٹیفکیٹ کے علاوہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے جس سے ان کی عمر کا اندازہ ہوسکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ عدالت چاہے تو لڑکیوں کی عمر جانچنے کے لیے ان کا طبی معائنہ کرا سکتی ہے۔
عدالت میں موجود وزارتِ انسانی حقوق کے ڈائریکٹر محمد حسین منگی نے وائس آف امریکہ کو سماعت کے بعد بتایا کہ وفاقی حکومت نے دونوں بچیوں کے معاملے پر صوبائی حکومت سے رپورٹ مانگ رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے ہمیں ایک ہفتے میں جامع رپورٹ دینے کا حکم دیا ہے اور تب تک دونوں بچیاں وزارتِ انسانی حقوق کی حفاظت میں رہیں گی۔
'ہندو بچیوں کو بیوی ہی کیوں بنایا جاتا ہے؟'
عدالت میں موجود اقلیتی رکنِ قومی اسمبلی کھیل داس کوہستانی نے عدالتی حکم پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں بچیوں کو کچھ عرصہ شیلٹر ہوم میں رکھا جائے اور والدین سے ملوایا جائے۔ ان کےبقول اس کے بعد اگر بچیاں مذہب تبدیل کرنا چاہیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کھیل داس کا کہنا تھا کہ صرف مارچ کے مہینے میں ان دونوں بچیوں سمیت چھ ہندو لڑکیوں کی مبینہ جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
کھیل داش کا کہنا تھا کہ یہ دو مذاہب کا ٹکراؤ نہیں بلکہ معاشرتی مسئلہ ہے۔ لیکن ان کے بقول سوال یہ ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کے بعد ہندو لڑکیوں کو صرف بیوی ہی کیوں بنایا جاتا ہے، بہنیں کیوں نہیں بنایا جاتا؟
سندھ کے ضلع ڈہرکی سے تعلق رکھنے والی ان دونوں ہندو بچیوں کے مبینہ اغوا اور جبری تبدیلی مذہب کے الزامات گزشتہ ہفتے سامنے آئے تھے جس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے حکام کو اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
معاملہ سوشل میڈیا پر گرم ہونے کے بعد دونوں لڑکیوں نے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا تھا جس میں انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے اور پسند سے شادی کرنے کا کہا تھا۔
مسلمان ہونے کے بعد روینا کا نام آسیہ جب کہ رینا کا نام شازیہ رکھا گیا ہے۔ روینا کا نکاح صفدر جب کہ رینا کا برکت سے ہوا ہے۔
اس کیس نے سوشل میڈیا پر بھی کافی توجہ حاصل کی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں بھی اس معاملے پر پاکستان اور بھارت دونوں طرف سے سوشل میڈیا پر لوگ کھل کر ایک دوسرے پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے بھی اس معاملے پر ایک ٹوئٹ کیا تھا جس پر پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات اور کئی دیگر رہنماؤں نے ان پر تنقید کی تھی۔
اس واقعے کی بنیاد پر پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل، مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی اور کم عمری کی شادی جیسے سماجی مسائل پر بھی سوشل اور مین اسٹریم میڈیا میں بحث جاری ہے۔