بھارت کے وزیرِخارجہ ایس جے شنکر نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان اور چین کا نام لیے بغیر الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردوں کے تحفظ کو جواز ک فراہم کرنے کے لیے کثیر فریقی پلیٹ فورمز کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ اگر آپ کثیر الجہتی کے تصور کو کامیاب دیکھناچاہتے ہیں تو کشمیر کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد کی اجازت دے سکتے ہیں۔
بھارت کی خبر رساں ایجنسی 'اے این آئی' کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کثیر الجہتی تصورکو کامیاب ثابت کریں۔ آپ یہ ثابت کریں کہ آپ کی صدارت میں کثیر فریقی تصور کامیاب ہواور ہمارے خطے میں امن قائم ہو۔
انھوں نے مزید کہا کہ کثیر فریقی ا لجہتی متحدہ کے چارٹر پر عمل درآمد، عوام کے حقِ خود ارادیت، طاقت کے عدم استعمال، طاقت سے علاقوں پر قبضہ نہ کرنے، ریاستوں کی علاقائی سا لمیت اور داخلی امور میں عدم مداخلت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ بھارت کشمیر پر پاکستان کے ساتھ تنازع کو دو طرفہ مسئلہ قرار دیتا ہے۔ جب کہ پاکستان کشمیر کے معاملے پر اقوامِ متحدہ سمیت علاقائی تنظیموں اور دیگر ممالک کی ثالثی کو مسئلے کے حل کے لیے ضروری قراردیتا آیا ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو کی جانب سے سلامتی کونسل میں کشمیر کا معاملہ اٹھانے پر بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جےشنکر نےان کی تقریر کا حوالہ دیے بغیر تنقید کانشانہ بنایا۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بھارت اس وقت سکیورٹی کونسل کے اجلاس کی صدارت کر رہا ہے۔وہ دنیا کےمسائل کے حل کے لیے کثیر ا یجہتی طریقۂ کار پر اپنے یقین کا ثبوت دیتے ہوئے کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کرائے۔
SEE ALSO: پاکستان کا کشمیر پر عالمی قراردادوں پر عمل درآمد پر زور، بھارت کی تنقیدایس جے شنکر نے بلاول بھٹو کے بیان پر تنقید کی اور کہا کہ دنیا نے جسے تسلیم نہ کیا ہو اسے صحیح ٹھہرانے کا سوال ہی نہیں اٹھنا چاہیے۔
مبصرین کے مطابق جے شنکر نے جہاں اپنے بیان میں پاکستان پر تنقید کی وہیں انھوں نے جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر سمیت دیگر دہشت گردوں پر پابندی لگانے کی سلامتی کونسل کی کوششوں کو ویٹو کرنے پر چین پر بھی نکتہ چینی کی۔
عالمی چیلنجر میں سلامتی کونسل کا کردار
ایس جے شنکر نے وبا، ماحولیاتی تبدیلی، تنازعات اور دہشت گردی جیسے چیلنجز کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی موثر کارروائی پر زور دیا اور کہا کہ اس ادارے کا اعتبار ان امور کے سلسلے میں اس کے اقدامات پر منحصر ہے۔
انھوں نے سلامتی کونسل میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم واضح طور پر کثیر الجہتی اصلاحات پر فوری توجہ مبذول کر رہے ہیں۔ فطری طور پر ہمارے اپنے مخصوص نظریات ہیں لیکن اس پر اتفاق بڑھ رہا ہے کہ اس معاملے میں مزید تاخیر نہیں ہونا چاہیے۔
ان کے مطابق ہم سب جانتے ہیں کہ سلامتی کونسل کی رکنیت میں مساوی نمائندگی اور اس میں اضافے کا سوال گزشتہ تین دہائیوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ جہاں اصلاحات پر بحث بے مقصد ہو گئی ہے وہیں دنیا ڈرامائی طور پر بدل گئی ہے۔ اس تبدیلی کو ہم معاشی خوشحالی، ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں، سیاسی اثر و رسوخ اور ترقیاتی پیش رفت میں دیکھ سکتے ہیں۔
ایس جے شنکر نے کہا کہ ہمیں سلامتی کونسل میں صرف اسٹیک ہولڈرس ہی میں اضافہ نہیں کرنا ہے بلکہ عالمی رائے عامہ کے تناظر میں کثیر الجہتی کے اعتبار کو بھی بڑھانا اور اسے موثر بنانا ہے۔
ان کے مطابق سلامتی کونسل میں لاطینی امریکہ، افریقہ، ایشیا اور چھوٹے ترقی پذیر جزائر کو بھی نمائندگی ملنی چاہے۔ ان کے بارے میں فیصلہ ان کی حصے داری کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کے بھارت پر دہشت گردی کی معاونت کا الزام
پاکستان نے 23 جون 2021 کو لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب ہونے والے بم دھماکے کے لیےبھارت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ اس واقعے میں تین افراد ہلاک اور 24 زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ ناقابلِ تردید شواہد ملے ہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے اور اس کے لیے وہ خطیر رقم خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس دھماکے کے لیے بھی 10 لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے۔
بھارت کے ایک سابق سفارت کار پربھو دیال کہتے ہیں کہ بھارت میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں میں پاکستان ملوث رہا ہے اور اب وہ خود بھارت پر الزام لگا رہا ہے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے وزیرِ داخلہ کا بیان بے بنیاد ہے۔ یہ بیان عوام کی توجہ پاکستان کے اندرونی حالات سے دوسری توجہ مبذول کرانے کی کوشش ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ جے شنکر نے درست کہا ہے کہ کثیر فریقی پلیٹ فورمز کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ انھوں نے الزام عاید کیا کہ چین دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے۔ وہ سلامتی کونسل کی جانب سے ان پر پابندی لگانے کو ویٹو کر دیتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں پہلی بار کشمیر کا مسئلہ نہیں اٹھایا ہے۔ وہ اس معاملے کو اٹھاتا رہتا ہے۔ ان کے مطابق اقوام متحدہ کی 1949 کی جو قراداد تھی اس میں کہا گیا ہے کہ پہلے پاکستان کشمیر سے اپنی افواج ہٹائے گا پھر بھارت ہٹائے گا اور پھر بھارت رائے شماری کا بند و بست کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ جس کشمیر پر پاکستان کا کنٹرول ہے وہاں سے اس نے اپنی افواج نہیں ہٹائیں۔ ان کے مطابق قرارداد کے پہلے حصے میں یہ بات کہی گئی تھی۔ لہٰذا جب پہلے حصے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو دوسرے حصوں پر بھی نہیں ہوا۔ ان کے خیال میں اب اتنے برسوں کے بعد اس معاملے کو اٹھانا درست نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اس مسئلے کا حل قرار دیتا ہے اور ان پر عمل درآمد پر اصرار کرتا آیا ہے۔