جیو ٹی وی آنے سے پہلے علامہ اقبال پر صرف وہی گفتگو ممکن تھی جس کی مشرقی تہذیب، سعودی عرب کے وظیفہ خوار علما اور تخت پر بیٹھے حکمران اجازت دیتے تھے۔
بات سماج کے جنگلے سے شروع ہوئی تھی۔ اس بلاگ کو پڑھنے سے پہلے میں گزارش کروں گا کہ اگر آپ نے میرا پچھلا بلاگ 'سماج کا جنگلا' نہ پڑھا ہو تو ضرور پڑھ لیجئے گا۔ اس بلاگ میں میں موضوع کو وہیں سے آگے بڑھا رہا ہوں جہاں پچھلے بلاگ میں بات ختم کی تھی۔
http://www.urduvoa.com/content/tehzeeb-kay-dairay-say-bahar-16mar2013/1620345.html
علامہ اقبال ایک شخصیت نہیں بلکہ دو مختلف لوگ تھے۔ ایک تو وہ علامہ اقبال ہیں جنہیں ہم نے اور آپ نے سکول میں پڑھا ہے۔ یہ بنیادی طور پر چھوٹے بچوں کے ایک شاعر تھے جنہوں نے 'پہاڑ اور گلہری' اور 'شمع اور پروانے' پر نظمیں لکھیں۔ دوسرے وہ علامہ اقبال ہیں جو مغربی یونیورسٹیوں میں آج تک پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ والے علامہ اقبال نثر نگار اور فلسفی ہیں جن کی پی ایچ ڈی Metaphysics میں تھی جو فلسفے کی مشکل ترین شاخوں میں سے ایک ہے۔
میرا سب سے پہلا تعارف ان علامہ اقبال سے کینیڈا کی 'براک یونیورسٹی' میں ہوا۔ میرے کینیڈین دوست اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ کیونکہ میں پاکستانی ہوں لہذا علامہ اقبال کی ان تحریروں سے بخوبی واقف ہوں گا جو وہاں پڑھائی جا رہی تھیں۔
مگر سچی بات تو یہ تھی کہ علامہ کے وہ مضامین جو مغربی یونیورسٹیوں میں اتنی دلچسپی اور محبت سے پڑھائے جا رہے تھے ان کا میں نے پاکستان میں کبھی نام بھی نہ سنا تھا۔ مجھے تمام کلاس کے سامنے بڑی شرمندگی سے اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کے Principles of Movement اور Is Religion Possible جیسی تحریریں میری نظر سے کبھی نہیں گزری تھیں۔
جب میںٕ پاکستان واپس آیا تو میں نے سوچا کے لوگوں کو ان علامہ اقبال کے بارے میں بھی بتایا جائے جنہیں مشرقی تہذیب نے اپنی دہلیز سے دھکیل کر باہر کر دیا ہے، جو مغربی یونیورسٹیوں میںٕ رہتے تھے اور ایک بالکل مختلف قسم کے معاشرے کی ذہنی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔
یہ سال تھا 2001ء اور 11 ستمبر کے واقعے نے دنیا کو خاصا تبدیل کر دیا تھا۔ پاکستان میں میڈیا کے حوالے سے یہ ایک اہم دور تھا کیونکہ 'جنگ' اخبار کی جانب سے 'جیو ٹی وی' لانچ کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔ 'جیو' پاکستان میں خبروں کے پہلے نجی چینل کے طور پر آ رہا تھا جس نے 24 گھنٹے اردو میں خبریں اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرے نشر کرنا تھے۔
اس مقصد کے لیے ایک لانچ ٹیم تشکیل دی گئی تھی اور پاکستانی میڈیا کی بڑی بڑی اور مشہور شخصیات اس چینل کو لانچ کرنے کے لیے کام کر رہی تھیں۔ میرے لیے اعزاز کی بات یہ تھی کہ مجھے نہ صرف اس ٹیم میں شامل کیا گیا بلکہ میرے اپنے اصرار پر مجھے ایک بہت ہی حساس پروگرام کا پروڈیوسر بھی بنا دیا گیا۔ یہ پروگرام تھا ایک مذہبی ٹاک شو 'الف'۔
اس دور میں مذہبی پروگرام صرف ایک ہی طرح کے ہوا کرتے تھے۔ ایک عالم دین آکر ٹی وی پر خطبہ دیتے تھے اور ان کی تقریر کو سنگل کیمرے سے ریکارڈ کر کے چلایا جاتا تھا۔ 'جیو' کی انتظامیہ ایک ایسا مذہبی پروگرام چاہتی تھی جس میٕں تقریر نہیٕں بلکہ بحث ہو اور مشکل ترین سوالات اٹھائے جائیں۔
اسی وجہ سے 'الف' کی میزبانی کے لیے ہم نے عنیق احمد کو چنا کیونکہ وہ شائستہ مزاج کے حامل تھے اور بہت خطرناک موضوعات کو پیار سے چھیڑنے کا فن جانتے تھے۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ 'الف' میں علامہ اقبال پر بات کی جائے مگر علامہ اقبال پر کھل کر بات کرنا مشرقی تہذیب کے لیے ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے۔ میری نظر میں اس کی تین وجوہات ہیں:
۱
) پاکستان میں موجودہ اسلامی سوچ کی تشکیل میں سعودی عرب کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور سعودی عرب سے آنے والی اسلامی سوچ کی علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں بہت سخت مخالفت کی تھی۔ یعنی جس قسم کا اسلام سعودی عرب سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلنے والا تھا وہ مسلمان معاشروں کو (علامہ اقبال کی نظر میں) اسی طرح اپاہج بنانے والا تھا جیسے عیسائیت نے یورپ کو بنایا تھا۔ اس وجہ سے علامہ اقبال نے فتووں کی پرواہ کیے بغیر فرمایا تھا:
“It is time to open the tavern of Rumi because the Imams of Kaaba are lying drunk in the courtyards of the Church.”
یہ بھی واضح رہے کہ علامہ اقبال کی کتاب Reconstruction of Religious Thought in Islam پر سعودی عرب نے پابندی لگائی تھی اور اس پابندی کا حوالہ 'وکی پیڈیا' میں بھی موجود ہے۔ یعنی وہ علامہ اقبال جو مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں وہ سعودی عرب میں آواز نہیں اٹھا سکتے تھے۔
۲
) دوسری چیز جس نے اقبال کو ان دنوں میں متنازع بنا رکھا تھا وہ جنرل پرویز مشرف تھے۔ آپ نے اپنی مشہور تقریر میں 'سب سے پہلے پاکستان' کا نعرہ بلند کیا تھا۔ زمانہ کچھ ایسا تھا کہ اس نعرے کے پیچھے ایک moral momentum پیدا ہو گیا تھا جو ایک جدید قومی شناخت کے چکر میں سیلاب بن کر روحانیت پر سے گزرنا چاہتا تھا۔ یہ بات شاید جنرل مشرف سمیت بہت کم لوگ جانتے تھے کے علامہ اقبال اپنے دور کے anti-nationalist گزرے تھے جن کے نزدیک قوم پرستی ایک جغرافیائی تعصب کی مانند تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہی تاکید کی تھی کہ اپنا ضمیر کبھی بھی وطن کے حوالے نہ کرنا ورنہ یہ تمہارے روحانی وجود کا گلا گھونٹ دے گا۔
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
۳) مگر سب سے بڑھ کے جو چیز علامہ کو مشرقی تہذیب کے لیے ناقابل ہضم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ Nietzsche کے نزدیک مرضی (WILL) وہ طاقت تھی جو انسان اور اقوام دونوں کو طاقتور بناتی تھی اور اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب یا دوسرے لفظوں میں عیسائیت تھی۔ جب کہ علامہ کے نزدیک مسلمانوں کے طاقت ور بننے کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ اسلام نہیں بلکہ مسلمانوں کے وہ چند سماجی رویے تھے جو انہیں بطور تہذیب ورثے میں ملے تھے ۔
تہذیب کے قیام کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ نئی نسل، پرانی نسل کی تقلید کرے اور ان اقدار کو دہرائے جو انہیں بزرگوں سے ملے۔ علامہ نے اسی رویہ کی مخالفت میں کہا تھا:
“To have a succession of thoughts and feelings is to have no thoughts and feelings at all. Such is the lot of Muslim countries today. They are mechanically repeating old values. (Reconstruction of Religious Thought in Islam)
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قسم کے علامہ اقبال اگر آج سکولوں اور کالجوں میں پڑھانا شروع کر دیے جائیں تو تہذیب کا بت کیسے زمین پر آن گرے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ علامہ اقبال پاکستان کے بجائے ان مغربی معاشروں کی ضرورت بن کر رہ گئے تھے جو اپنی 'مرضی' کو تہذیب کے قدیم چنگل سے آزاد کرانے کے لیے کسی نظریاتی اسلحے کی تلاش میں تھے۔
'جیو' ٹی وی آنے سے پہلے علامہ اقبال پر صرف وہی گفتگو ممکن تھی جس کی مشرقی تہذیب، سعودی عرب کے وظیفہ خوار علما اور تخت پر بیٹھے حکمران اجازت دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ملک کی بڑی بڑی علمی شخصیات علامہ اقبال پر بات کرنے سے کتراتی تھیں۔
میں نے علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کو فون کیا اور کہا کہ میں آپ کے والد کا بہت بڑا فین ہوں اور ان پر گفتگو کرنے کے لیے آپ کو اپنے پروگرام میں مدعو کرنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کے جس قسم کی گفتگو آپ لوگ کرانا چاہتے ہیں اس کے لیے مجھ سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ لوگ آپ کو مل جائیں گے۔
میں نے بہت اصرار کیا اور کہا کے یہ 'جیو' ٹی وی ہے اور اس پر ہم وہ باتیں کرنے کی جرات کرتے ہیں جو پہلے کبھی نہ کی گئی ہوں۔ جسٹس صاحب بہت اصول پسند آدمی تھے۔ اگر وہ چاہتے تو قوم کے سامنے ہیرو بن سکتے تھے اور اس موقعے پر اپنے والد کا وہ چہرہ فروخت کر سکتے تھے جس سے عوام مانوس تھی۔ مگر وہ اسی شرط پر آنے کے لیے رضامند ہوئے کہ پروگرام میں ایک سچی اور سنجیدہ گفتگو ہو گی۔
دوسری جانب میں نے جماعت اسلامی کے امیر جناب قاضی حسین احمد کو بھی فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ علامہ اقبال کے فلسفے پر بات کریں۔ وہ اس وقت کسی جلسے میں مصروف تھے اور پروگرام میں شرکت نہ کر سکے مگر اتنا وعدہ ضرور کیا کے وہ ٹیلی فون پر گفتگو میں شریک ہوجائیں گے۔
پروگرام 'الف' کے Executive Producer عبدالروف صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں لو گ 'پچاس منٹ' کے میزبان کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ جب ان کو علم ہوا کہ مذکورہ دو شخصیات علامہ اقبال پر بحث کرنے کے لیے آ رہی ہیں تو شروع میں ناراض ہوئے اور بولے "یار ہم نے یہاں کوئی جنگ نہیں کرانی"۔ مگر پھر شاید انہوں نے خود ہی سوچا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ مشرقی تہذیب کے علامہ اقبال اور مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے اقبال دونوں ایک ہی پروگرام میں آ رہے ہیں، لہذا انہوں نے پروگرام کی اجازت دے دی۔
جب پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہوئی تو عبدالروف صاحب کی بات سچ ثابت ہوئی۔ پروگرام میں تلخ کلامی بھی ہوئی اور قاضی صاحب نے علامہ اقبال کے فرزند کو کہا کہ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے والد کو پڑھنے کے بعد یہاں آئیں۔ یعنی مشرقی تہذیب کے علامہ اقبال کی پوری کوشش تھی کہ مغربی یونیورسٹیوں کے علامہ اقبال کا گلا گھونٹ دے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی لائن مجھے آج تک یاد ہے۔ انہوں نے فرمایا میں اپنے والد کی شاعری سے زیادہ ان کی نثر کو اہم سمجھتا ہوں۔ جب یہ پروگرام نشر ہوا تو پاکستانی عوام کو شاید پہلی بار معلوم ہوا کہ علامہ اقبال صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ کچھ اور بھی تھے۔
'الف' جیسے پروگراموں کے ساتھ ایک مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ اگر کھرا سچ عوام کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو مشرقی تہذیب مرنا شروع ہو جاتی ہے۔ اسے زندہ رکھنے کے لیے سچ کو پردہ کرانا پڑتا ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے علاوہ اسلامی تاریخ کی بھی بہت بڑی بڑی اور عظیم شخصیات کو ایسے پیش کرنا پڑتا تھا کہ کہیں ان کا مشرقی تہذیب سے اختلاف نہ سامنے آ جائے۔
اس قسم کا ایک پروگرام کرنے کے بعد آدمی کا دماغ کافی خراب ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو یہ بلاگ پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہو کہ میں دیوانہ ہوں تو یہ جان لیجئے کے میں نے اس پروگرام کی 121 اقساط بنائیں۔ سچ کو ایسے ایسے جلباب پہنائے کہ کہیں مشرقی تہزیب اسے پہچان کر خوف ہی سے نہ مر جائے۔
اگر آپ کو اب بھی مشرقی تہذیب اچھی لگ رہی ہے تو اس میں مجھ جیسے چند لوگوں کا خاصا قصور ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/tehzeeb-kay-dairay-say-bahar-16mar2013/1620345.html
علامہ اقبال ایک شخصیت نہیں بلکہ دو مختلف لوگ تھے۔ ایک تو وہ علامہ اقبال ہیں جنہیں ہم نے اور آپ نے سکول میں پڑھا ہے۔ یہ بنیادی طور پر چھوٹے بچوں کے ایک شاعر تھے جنہوں نے 'پہاڑ اور گلہری' اور 'شمع اور پروانے' پر نظمیں لکھیں۔ دوسرے وہ علامہ اقبال ہیں جو مغربی یونیورسٹیوں میں آج تک پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ والے علامہ اقبال نثر نگار اور فلسفی ہیں جن کی پی ایچ ڈی Metaphysics میں تھی جو فلسفے کی مشکل ترین شاخوں میں سے ایک ہے۔
میرا سب سے پہلا تعارف ان علامہ اقبال سے کینیڈا کی 'براک یونیورسٹی' میں ہوا۔ میرے کینیڈین دوست اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ کیونکہ میں پاکستانی ہوں لہذا علامہ اقبال کی ان تحریروں سے بخوبی واقف ہوں گا جو وہاں پڑھائی جا رہی تھیں۔
مگر سچی بات تو یہ تھی کہ علامہ کے وہ مضامین جو مغربی یونیورسٹیوں میں اتنی دلچسپی اور محبت سے پڑھائے جا رہے تھے ان کا میں نے پاکستان میں کبھی نام بھی نہ سنا تھا۔ مجھے تمام کلاس کے سامنے بڑی شرمندگی سے اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کے Principles of Movement اور Is Religion Possible جیسی تحریریں میری نظر سے کبھی نہیں گزری تھیں۔
جب میںٕ پاکستان واپس آیا تو میں نے سوچا کے لوگوں کو ان علامہ اقبال کے بارے میں بھی بتایا جائے جنہیں مشرقی تہذیب نے اپنی دہلیز سے دھکیل کر باہر کر دیا ہے، جو مغربی یونیورسٹیوں میںٕ رہتے تھے اور ایک بالکل مختلف قسم کے معاشرے کی ذہنی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔
یہ سال تھا 2001ء اور 11 ستمبر کے واقعے نے دنیا کو خاصا تبدیل کر دیا تھا۔ پاکستان میں میڈیا کے حوالے سے یہ ایک اہم دور تھا کیونکہ 'جنگ' اخبار کی جانب سے 'جیو ٹی وی' لانچ کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔ 'جیو' پاکستان میں خبروں کے پہلے نجی چینل کے طور پر آ رہا تھا جس نے 24 گھنٹے اردو میں خبریں اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرے نشر کرنا تھے۔
اس مقصد کے لیے ایک لانچ ٹیم تشکیل دی گئی تھی اور پاکستانی میڈیا کی بڑی بڑی اور مشہور شخصیات اس چینل کو لانچ کرنے کے لیے کام کر رہی تھیں۔ میرے لیے اعزاز کی بات یہ تھی کہ مجھے نہ صرف اس ٹیم میں شامل کیا گیا بلکہ میرے اپنے اصرار پر مجھے ایک بہت ہی حساس پروگرام کا پروڈیوسر بھی بنا دیا گیا۔ یہ پروگرام تھا ایک مذہبی ٹاک شو 'الف'۔
اس دور میں مذہبی پروگرام صرف ایک ہی طرح کے ہوا کرتے تھے۔ ایک عالم دین آکر ٹی وی پر خطبہ دیتے تھے اور ان کی تقریر کو سنگل کیمرے سے ریکارڈ کر کے چلایا جاتا تھا۔ 'جیو' کی انتظامیہ ایک ایسا مذہبی پروگرام چاہتی تھی جس میٕں تقریر نہیٕں بلکہ بحث ہو اور مشکل ترین سوالات اٹھائے جائیں۔
اسی وجہ سے 'الف' کی میزبانی کے لیے ہم نے عنیق احمد کو چنا کیونکہ وہ شائستہ مزاج کے حامل تھے اور بہت خطرناک موضوعات کو پیار سے چھیڑنے کا فن جانتے تھے۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ 'الف' میں علامہ اقبال پر بات کی جائے مگر علامہ اقبال پر کھل کر بات کرنا مشرقی تہذیب کے لیے ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے۔ میری نظر میں اس کی تین وجوہات ہیں:
۱
“It is time to open the tavern of Rumi because the Imams of Kaaba are lying drunk in the courtyards of the Church.”
یہ بھی واضح رہے کہ علامہ اقبال کی کتاب Reconstruction of Religious Thought in Islam پر سعودی عرب نے پابندی لگائی تھی اور اس پابندی کا حوالہ 'وکی پیڈیا' میں بھی موجود ہے۔ یعنی وہ علامہ اقبال جو مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں وہ سعودی عرب میں آواز نہیں اٹھا سکتے تھے۔
۲
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
۳) مگر سب سے بڑھ کے جو چیز علامہ کو مشرقی تہذیب کے لیے ناقابل ہضم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ Nietzsche کے نزدیک مرضی (WILL) وہ طاقت تھی جو انسان اور اقوام دونوں کو طاقتور بناتی تھی اور اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب یا دوسرے لفظوں میں عیسائیت تھی۔ جب کہ علامہ کے نزدیک مسلمانوں کے طاقت ور بننے کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ اسلام نہیں بلکہ مسلمانوں کے وہ چند سماجی رویے تھے جو انہیں بطور تہذیب ورثے میں ملے تھے ۔
تہذیب کے قیام کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ نئی نسل، پرانی نسل کی تقلید کرے اور ان اقدار کو دہرائے جو انہیں بزرگوں سے ملے۔ علامہ نے اسی رویہ کی مخالفت میں کہا تھا:
“To have a succession of thoughts and feelings is to have no thoughts and feelings at all. Such is the lot of Muslim countries today. They are mechanically repeating old values. (Reconstruction of Religious Thought in Islam)
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قسم کے علامہ اقبال اگر آج سکولوں اور کالجوں میں پڑھانا شروع کر دیے جائیں تو تہذیب کا بت کیسے زمین پر آن گرے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ علامہ اقبال پاکستان کے بجائے ان مغربی معاشروں کی ضرورت بن کر رہ گئے تھے جو اپنی 'مرضی' کو تہذیب کے قدیم چنگل سے آزاد کرانے کے لیے کسی نظریاتی اسلحے کی تلاش میں تھے۔
'جیو' ٹی وی آنے سے پہلے علامہ اقبال پر صرف وہی گفتگو ممکن تھی جس کی مشرقی تہذیب، سعودی عرب کے وظیفہ خوار علما اور تخت پر بیٹھے حکمران اجازت دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ملک کی بڑی بڑی علمی شخصیات علامہ اقبال پر بات کرنے سے کتراتی تھیں۔
میں نے علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کو فون کیا اور کہا کہ میں آپ کے والد کا بہت بڑا فین ہوں اور ان پر گفتگو کرنے کے لیے آپ کو اپنے پروگرام میں مدعو کرنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کے جس قسم کی گفتگو آپ لوگ کرانا چاہتے ہیں اس کے لیے مجھ سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ لوگ آپ کو مل جائیں گے۔
میں نے بہت اصرار کیا اور کہا کے یہ 'جیو' ٹی وی ہے اور اس پر ہم وہ باتیں کرنے کی جرات کرتے ہیں جو پہلے کبھی نہ کی گئی ہوں۔ جسٹس صاحب بہت اصول پسند آدمی تھے۔ اگر وہ چاہتے تو قوم کے سامنے ہیرو بن سکتے تھے اور اس موقعے پر اپنے والد کا وہ چہرہ فروخت کر سکتے تھے جس سے عوام مانوس تھی۔ مگر وہ اسی شرط پر آنے کے لیے رضامند ہوئے کہ پروگرام میں ایک سچی اور سنجیدہ گفتگو ہو گی۔
پروگرام 'الف' کے Executive Producer عبدالروف صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں لو گ 'پچاس منٹ' کے میزبان کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ جب ان کو علم ہوا کہ مذکورہ دو شخصیات علامہ اقبال پر بحث کرنے کے لیے آ رہی ہیں تو شروع میں ناراض ہوئے اور بولے "یار ہم نے یہاں کوئی جنگ نہیں کرانی"۔ مگر پھر شاید انہوں نے خود ہی سوچا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ مشرقی تہذیب کے علامہ اقبال اور مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے اقبال دونوں ایک ہی پروگرام میں آ رہے ہیں، لہذا انہوں نے پروگرام کی اجازت دے دی۔
جب پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہوئی تو عبدالروف صاحب کی بات سچ ثابت ہوئی۔ پروگرام میں تلخ کلامی بھی ہوئی اور قاضی صاحب نے علامہ اقبال کے فرزند کو کہا کہ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے والد کو پڑھنے کے بعد یہاں آئیں۔ یعنی مشرقی تہذیب کے علامہ اقبال کی پوری کوشش تھی کہ مغربی یونیورسٹیوں کے علامہ اقبال کا گلا گھونٹ دے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی لائن مجھے آج تک یاد ہے۔ انہوں نے فرمایا میں اپنے والد کی شاعری سے زیادہ ان کی نثر کو اہم سمجھتا ہوں۔ جب یہ پروگرام نشر ہوا تو پاکستانی عوام کو شاید پہلی بار معلوم ہوا کہ علامہ اقبال صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ کچھ اور بھی تھے۔
'الف' جیسے پروگراموں کے ساتھ ایک مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ اگر کھرا سچ عوام کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو مشرقی تہذیب مرنا شروع ہو جاتی ہے۔ اسے زندہ رکھنے کے لیے سچ کو پردہ کرانا پڑتا ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے علاوہ اسلامی تاریخ کی بھی بہت بڑی بڑی اور عظیم شخصیات کو ایسے پیش کرنا پڑتا تھا کہ کہیں ان کا مشرقی تہذیب سے اختلاف نہ سامنے آ جائے۔
اس قسم کا ایک پروگرام کرنے کے بعد آدمی کا دماغ کافی خراب ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو یہ بلاگ پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہو کہ میں دیوانہ ہوں تو یہ جان لیجئے کے میں نے اس پروگرام کی 121 اقساط بنائیں۔ سچ کو ایسے ایسے جلباب پہنائے کہ کہیں مشرقی تہزیب اسے پہچان کر خوف ہی سے نہ مر جائے۔
اگر آپ کو اب بھی مشرقی تہذیب اچھی لگ رہی ہے تو اس میں مجھ جیسے چند لوگوں کا خاصا قصور ہے۔