برطانیہ کے ایک اعلیٰ فوجی اہل کار نے متنبہ کیا ہے کہ اگر عراق میں کی گئی امریکی فضائی کارروائی میں داعش کے کلیدی جہادی سرغنے ہلاک بھی ہوئے ہوں، تب بھی یہ شدت پسند گروہ اس قابل ہے کہ کوئی اور اس کی کمان سنبھال لے۔
یہ بات برطانیہ کے چیف آف ڈفنس اسٹاف، نِک ہوٹن نے اتوار کے دِن ’بی بی سی ٹیلی وژن‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہی ہے۔
اُنھوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی آیا جمعے کی رات گئے موصل کے قریب داعش کے قافلے پر کیے گئے امریکی حملے میں، دولت اسلامیہ گروہ کا سربراہ، ابو بکر البغدادی ہلاک ہوا۔
تاہم، ہوٹن کا کہنا تھا کہ اگر بغدادی ہلاک بھی ہوا ہو، تب بھی وہ اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے کہ باغیوں کی ’لشکر کشی رک جائے گی‘۔
بقول اُن کے، ’میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بغدادی ہلاک ہوا۔ امریکی خود بھی اس بات کی تصدیق نہیں کر پا رہے ہیں۔ شاید، یقین کے ساتھ یہ بتانے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ لیکن، میں فوری طور پر یہ تاثر نہیں دوں گا کہ اُن کے ایک چوٹی کے رہنما کی ممکنہ ہلاکت کے باعث داعش کے عزائم تھم جائیں گے۔ وہ قیادت پیدا کر لیں گے۔ اس لیے کہ اس گروہ کی نظریاتی جاذبیت اچھوتی فکر پر مبنی ہے۔ جب تک کہ ہم اس کی حکمت عملی کے سیاسی تناظر کو مد نظر نہ رکھیں تو الگ بات، وگرنہ دولت اسلامیہ میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ سر اٹھاتی رہے گی اور اس کے رہنما پیدا ہوتے رہیں گے۔‘
عراق کا کہنا ہے کہ اس بات کی چھان بین جاری ہے آیا اُس قافلے میں داعش کے کون سے لیڈر شامل تھے، جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ہلاک یا زخمی ہوئے۔
’سی بی ایس‘ ٹیلی وژن کے ایک پروگرام ’فیس دِی نیشن‘ کو ایک انٹرویو میں، امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ فضائی کارروائیاں جہادیوں کی صلاحیتوں کو کم کرنے اور اُن کی پیش قدمی روکنے میں ’کافی مؤثر‘ ثابت ہوئی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ 1500 اضافی امریکی فوجیوں کی تعیناتی، داعش کے شدت پسند گروہ کے خلاف لڑائی کے حوالے سے عراقی فوج کو تربیت دینے کے لیے ایک ’نئے مرحلے‘ کی غماز ہے۔ مسٹر اوباما نے کہا کہ امریکی فوجیوں کی تعداد دوگنی کرنے کے باعث اب عراقی اس قابل ہوں گے کہ وہ ’لڑاکا کارروائی میں تیزی لائیں‘۔
تاہم، اُنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکی فوجیں زمینی لڑائی میں شامل نہیں ہوں گی۔