امریکہ کی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل جیمز جونز نے متنازع ’ممیو گیٹ‘ سے متعلق اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ میمو منصور اعجاز ہی نے لکھا تھا اور سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کا اس سے تعلق نہیں ہے۔
اُنھوں نے یہ بیان حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی درخواست پر بھیجا جسے ہفتہ کو پاکستانی عدالت عظمیٰ جمع کرا دیا گیا۔ جنرل جیمز جونز نے کہا کہ ان کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ حسین حقانی کا میمو کی تخلیق سے کوئی تعلق ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ 9 مئی 2011ء سے چند دن پہلے منصور اعجاز نے فون پر اُنھیں بتایا تھا کہ ان کے پاس پاکستان کے ایک اعلیٰ ترین عہدیدار کا پیغام ہے جسے وہ ایڈمرل مائیک ملن تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ جیمز جونز نے کہا کہ اس تمام تر گفتگو میں حسین حقانی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
جیمز جونز نے بیان حلفی میں کہا کہ اُنھوں نے منصو اعجاز کو باور کرایا تھا کہ وہ زبانی طور پر کوئی بھی پیغام ایڈمرل ملن تک نہیں پہنچائیں گے اس لیے وہ اپنے پیغام کو تحریری شکل دیں۔ سابق امریکی مشیر نے کہا کہ ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ متنازع میمو قابل بھروسہ نہیں ہے۔
متنازع میمو کا انکشاف پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے 10 اکتوبر کو اپنے ایک اخباری مضمون میں کیا تھا۔ ان کا الزام ہے کہ صدر آصف علی زرداری سے منسوب میمو اُنھوں نے سابق سفیر حسین حقانی کے کہنے پر لکھا تھا۔
اس انکشاف کے بعد پاکستان میں یہ معاملہ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا اور حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نے عدالت عظمیٰ میں ایک آئینی درخواست بھی دائر کر دی جس میں اس معاملے میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کی استدعا کی گئی۔
عدالت عظمیٰ کے حکم پر وفاق اور پاکستان کی عسکری قیادت کے علاوہ حسین حقانی اور منصور اعجاز بھی اپنے تحریری بیانات سپریم کورٹ میں جمع کر اچکے ہیں۔
فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میمو ایک حقیقت ہے اور اس کی تحقیقات کی جانی چاہیئے لیکن وفاق کا موقف ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں اس لیے اس مقدمے کو خارج کیا جائے۔
وفاق اور فوج کے اس مختلف موقف کے بعد ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی کہ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔
لیکن جمعہ کی شب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ہونے والی ملاقات کے بعد رات دیر گئے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں قومی اداروں کے درمیان تصادم کے تاثر کی سختی سے نفی کی گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت پاکستان اور اس کے ادارے اپنے آئینی کردار، جمہوری ذمہ داریوں اور پاکستان کے خوشحال مستقبل کے حوالے سے پرعزم ہیں۔ بیان میں انھوں نے کہا کہ میمو کے معاملے پر ابھی عدالت نے حکومت کا موقف سننا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے عدالت کے حکم پر اپنے تحریری جوابات قواعد وضوابط کے مطابق جمع کرائے ہیں اور یہ تاثر درست نہیں کہ حکومت اور فوج کے درمیان اس معاملے پر کوئی تناؤ پایا جاتا ہے۔