اردن نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لیبیا میں جاری خانہ جنگی ختم کرانے اور لیبیا کی حکومت کی رِٹ بحال کرانے کے لیے اقدامات کرے۔
اردن نے سلامتی کونسل کے ارکان کے سامنے ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا ہے جس میں لیبیا کی حکومت کی جانب اسلحے کی خریداری پر عائد بین الاقوامی پابندیاں اٹھانے، شدت پسندوں کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے اور دارالحکومت طرابلس میں لیبیا کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی رٹ بحال کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
سلامتی کونسل نے بدھ کو اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں لیبیا کی صورتِ حال پر غور کیا تھا جہاں مختلف ملیشیاؤں اور دو متوازی حکومتوں کے مابین جاری محاذ آرائی باقاعدہ خانہ جنگی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
سلامتی کونسل کا اجلاس شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جانب سے جاری کی جانے والی اس ویڈیو کے بعد طلب کیا گیا تھا جس میں شدت پسندوں کو مصر سے تعلق رکھنے والے 21 قبطی عیسائیوں کے سر قلم کرتے ہوئے دکھایا گیاتھا۔
ان عیسائیوں کو شدت پسندوں نے لیبیا سے اغوا کیا تھا جب کہ ان کے قتل کی ویڈیو گزشتہ ہفتے سامنے آئی تھی۔
اس واقعے کے ردِ عمل میں مصر کی فضائی فوج کے جنگی طیاروں نے لیبیا میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر مبینہ طور پر بمباری بھی کی تھی جس پر بعض عرب اور مغربی حکومتوں نے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
بدھ کو سلامتی کونسل کے اجلاس کے خطاب میں لیبیا کے وزیرِ خارجہ محمد الدائری نے اپنے ملک کی صورتِ حال کو "تباہ کن" قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کو امن اور استحکام کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریاں انجام دینی چاہئیں۔
محمد الدائری نے کہا تھا کہ لیبیا کی صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری لیبیا کی سکیورٹی فورسز کی تعمیرِ نو کے لیے ہتھیاروں کے حصول پر عائد پابندی ختم کرے تاکہ فوج کو دہشت گردی کے مقابلے کے لیے تیار کیا جاسکے۔
اپنے خطاب میں لیبیا کے وزیرِ خارجہ نے وضاحت کی تھی کہ ان کی حکومت لیبیا میں بین الاقوامی فوجی مداخلت کی خواہاں نہیں بلکہ وہ داخلی سلامتی کے تحفظ کے لیے مقامی سکیورٹی فورسز کو ہی مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
لیبیا پر 2011ء میں اس وقت کے آمر صدر معمر قذافی کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کے دوران ہی اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہتھیاروں کے حصول پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو تاحال برقرار ہے۔
بین الاقوامی برادری کی حمایتِ یافتہ لیبیا کی حکومت، جو جنوبی شہر تبروک سے نظمِ حکومت چلا رہی ہے، مسلسل اقوامِ متحدہ کی متعلقہ کمیٹیوں کو ہتھیاروں کی خریداری پر عائد پابندیاں اٹھانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیکن کئی مغربی ممالک اس پابندی کے خاتمے میں پس و پیش کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ لیبیا کی سکیورٹی فورسز کو دیے جانے والے ہتھیار دہشت گردو ں کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں۔